فضاؤں میں ابھی تک احساس ہے دُکھ کا
اندر کہیں کچھ خالی سا ہوا ہے
بہت دنوں سے
کچھ ڈھونڈ رہی ہیں نگاہیں
اک وہ جو اب پاس نہیں رہا ہے
ہاں وہ دور جا بسا ہے کہیں
بنا کے اسکے کچھ سوجھ نہیں رہا ہے
کرب و اذیت نے توڑ دیا ہے اندر تلک
ہاں اب سمجھ آیا
زندگی کیا بلا ہے !
ہم زندہ ہیں یہ حقیقت ہے
لیکن
ہم بھی مر گئے تھے اسی روز
یقین جانو
جس دن سے وہ روٹھ کر گیا ہے
ہاں مگر سانس جاری ہے ابھی تک
کیونکہ
زندگی نے اک نیا جنم لیا ہے ۔
مرحوم بھائی باقر عزیز کے نام اس کے جانے کا اس درد کو بیان کرنے کی کوشش جو اس کے جانے کے بعد اندر کہیں بہت کچھ توڑ پھوڑ رہا ہے ۔
بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے
"یاد"
مگر نہیں یہ چھوٹا سہی ! اس نے اپنے اندر ایک دنیا آباد کر رکھی ۔ دنیا ! خوشی کی دنیا ! غم کی دنیا ! مسکراہٹ اور آنسوؤں کی دنیا ، قہقوں اور آہ زاریوں کی دنیا ! یہ لفظ خوشی کے شادیانوں کے لمحات بھی بھی یہ اپنے اندر رکھتا ہے اور اذیت و کرب کا وقت بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے !
یہ لفظ دیکھنے میں پڑھنے میں لکھنے میں بالکل بڑا نہیں ہے ، لیکن جب اسے محسوس کیا جائےتو یہ جذبات کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دینے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے ! یہ آنکھوں کووضو کرانے کی قوت رکھتا ہے ! یہ ہونٹوں پر ہنسی بکھیر دیتا ہے ! یہ لمحے میں تنہا کر دیتا ہے اور پل میں ہمارے اردگرد بھیڑ لگا دیتا ہے ۔
ہم گزرے لمحوں کو یاد کرتے ہیں، روتے ہیں ہنستے ہیں ، وہ سب اذیت اور کرب کے لمحے جو ہمارے آنکھوں میں مجسم ہو جاتے ہیں جو ہمارے دل کے زمین پر نقش ہو جاتے ہیں، آنکھیں بند کر کے جب ان لمحوں کو یاد کیا جاتا ہے تو آنکھیں ہمارے اختیار میں نہیں رہتی ! خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے ، دل بند ہونے کا امکان لگتا ہے ، دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے ، غرض یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ، زندگی رک گئی ، ہم ایک بار پھر سے اسی گھڑی میں پہنچ جاتے ہیں ، وحشت عود آتی ہے ! مایوسی چھانے لگتی ہے ! اور پھر جب ہم وہ سب دہرا کر اپنی زندگی کی حقیقتوں میں واپس آتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یادیں ہمیں کھنچ کر کہاں لے گئیں تھیں ۔
اور یہی یاد جب ہمیں خوشی کے شادیانوں میں لئے جاتی ہیں ، زندگی کے لمحے حسین ہو جاتے ہے ، دل جینے پر آمادہ ہو جاتا ہے ، جذبات احساسات میں ہلچل مچ جاتی ہے ، لیکن یہ ہلچل ہمیں خوشی اور فرحت کا احساس مہیا کر دیتی ہے ، بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ہے ۔ مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں ،وقت تیزی سے گزرنے لگتا ہے ، اور کتنی ہی دیر تک یہ احساسات ہم پر حاوی رہتے ہیں ، ہمیں سکون پہنچاتے اور آسودگی مہیا کرتے ہیں ۔
یادیں سرمایہ بھی ہوتی ہیں اور کمزوری بھی ، یہ ہمیں مضبوط بھی کرتی ہیں اور ہماری توڑ پھوڑ بھی جاری رکھتی ہیں ، غرض یادوں کا طوفان اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہماری زندگی میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ یاد چیزوں سے وابسطہ ہو یا لوگوں سے ، کسی پیارے کے دائمی جدائی کا دکھ ہو کسی کے ساتھ گزرے حسین لمحے ، ہمارے اندر کی دنیا میں ایک طوفان آتا ہے اور آکر گزر جاتا ہے پھر سب کچھ ساکت و جامد ہو جاتا ہے ، سفر جاری ہو جاتا ہے ، اور یادیں بنتی رہتی ہے ، اور پھر یادوں کا یہ سلسلہ جو ہمارے ہوش میں آنے سے شروع ہو جاتا ہے تو سانس ختم ہونے پر یہ بھی اپنا اختتام کر دیتا ہے ، اس طرح ہم سے وابسطہ لوگوں میں ہماری ساتھ گزری وہ تمام یادیں منتقل ہو جاتیں ہیں پھر وہ ہمیں یاد کرتے ہیں ، ہمارے ساتھ گزرے اچھے بُرے لمحات اور زندگی کی گاڑی یادوں کا سفر ساتھ لئے یونہی جاری رہتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔

تحریر۔ ناعمہ عزیز ۔


کبھی تم نے یہ سوچا ہے ؟
کہ بہنوں کی ادائیں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں ،
یہ خود بھوکی بھی رہتی ہیں ،
یہ خود پیاسی بھی رہتی ہیں ،
پر جھلستی دھوپ میں یہ پریاں
چھاؤں جیسی ہوتی ہیں ،
کبھی تم نے یہ سوچا ہے ؟
تمھاری عزتوں کی چادر کی حفاظت کرتی ہیں ،
تمھاری غیرتوں کے نام پر قربان ہوتی ہیں ،
یہ اپنی خواہشوں کے اکثر
گلے کو گھونٹ دیتی ہیں ،
یہ پھولوں سی نازک جانیں ،
تمھارا مان ہوتی ہیں ،
کبھی تم نے یہ سوچاہے ؟
تمھارے غم میں اکثر ،
اٹھ اٹھ کر جو راتوں کو ۔
یہ بے آواز روتی ہیں !
تمھارے حصے کے سب درد ،
اپنی قسمت میں لکھنے کی ،
جو رب سے دعائیں کرتی ہیں!
یہ اپنے حصے کی خوشیاں
جو تم پر وار دیتی ہیں ،
کبھی تم نے یہ سوچا ہے ؟
یہ ایسا کیونکر کرتی ہیں ؟

کیونکہ
یہ ماں کا روپ ہوتی ہیں ۔
یہ ماؤں جیسی ہوتی ہیں ۔
سوال ہونا چاہتی ہوں ،
جواب ہونا چاہتی ہوں
خوشی و غم کے موت و زندگی کے
سبھی جذبوں سے آزاد ہونا چاہتی ہوں،
میں چاہتی ہوں خامشیوں کے سبھی سنگم
آسمان کی وسعتوں میں
محو پرواز ہونا چاہتی ہوں
پر ابھی تو بہت سفر باقی ہے ،
ابھی تو نغمگی کا ہوتا لازم ہے
ابھی تو قرب انسان واجب ہے
ابھی تو میں وفا اور استقامت کی خوبی تک نہیں پہنچی
ابھی تو فقیری عطا بھی نہیں ہوئی
ابھی تو قلندری کے رموز بھی نہاں ہیں
ابھی تو فکر و عمل سے دوری ہے ،
ابھی تو خیالات انتشار کا شکار ہیں
ابھی تو نوک خار پر کوئی صاحب حال
شبنم کی طرح رقص کرتا نہیں آیا
ابھی تو دل و نگاہ میں سمانا باقی ہے
ابھی تو وحدت کے آثار نمودار نہیں ہوئے
ابھی تو اس فیض کے قابل نہیں ہوں میں
ابھی تو یہ فیصلہ نصیب کی بابت ہوگا
از : ناعمہ عزیز 
میرے ساتھ بڑا عجیب مسئلہ ہے کہ جب کوئی بات مل جائے اس کی کھال اتارنے کو تیار ہو جاتی ہوں ، اور جب تک اسکی کھال نا اتر جائے مجھے چین نہیں آتا، مختصر الفاظ میں یہ کہ جب تک اپنے اندر کا اُبال باہر نا نکا ل لوںٕ مجھے وہ سوچ تنگ کرتی ہی رہتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ جب تک امتحان نہیں ہو جاتے میں کچھ نہیں لکھوں گی ، نا کچھ سوچوں گی ،
مزے کی بات یہ ہو ئی کہ رات کو خواب میں بھی میں یہ کہتی رہی ہوں کہ
Excess of everything is bad.
اب اسکی بھی وضاحت کرتی چلوں ، دراصل ہر چیز کی زیاتی بُری ہو تی ہے اس کا تعلق بھی میرے موضوع سے ہے،!


اب یہ معاملہ ہی لے لیں کہ دو دن پہلے کی با ت ہے کہ میری دوست نے میرےسامنے اپنے تین چار سال کے بھانجے کو اس لئے ڈانٹ دیا کہ وہ پنجابی بول رہا تھا ، میں نے کہا ، کوئی بات نہیں بول رہا ہے تو بولنے دو ، اتنی اچھی لگ رہی اس کی انداز میں پنجابی ، اور ویسے بھی پنجابی ایک زبان ہے ،اور جتنا مزہ پنجابی میں ہے اتنا اور کسی زبان میں نہیں ،
آپ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ اردو بولتے ہو ئے ذرا تکلف آجاتا ہے ، اور انگلش ایسی تو اس قدر تکلفانہ زبان ہے کہ میرے تو بول بول کر منہ میں درد ہو جاتا ہے !


میں یہ سمجھتی ہوں کہ نا کبھی بھی کچھ ایک انسان کی وجہ سے نہیں ہو تا ، آپ دیکھیں کہ بات پورے ملک کی ہے ، اور پورا ملک کسی ایک انسان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے تھوڑی برباد ہو سکتا ہے ؟ جیسے ایک انسان کی بربادی کے پیچھے صرف اس کا اپنا ہی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ جو اس کے اردگرد ہوتے ہیں ، اس سے وابسطہ ہوتے ہیں ، سب مل کر اسے تباہ و برباد کرتے ہیں ،
اسی طرح اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہم آج بھی ایک غلام قوم ہیں ، ہماری تہذیب و روایات ہمار ی تاریخ ، ثقافت کو ہم سب نے خود مل کر ختم کیا ہے ، آپ دیکھیں کہ ہمارا قومی لباس شلوار قمیض ہے لیکن آپ دیکھیں کہ کوئی بھی شلوار قمیض پہننا پسند نہیں کرتا ، ہر نئے فیشن کی پیروی کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے ، پہلے پی ٹی وی ایک ایسا چینل تھا جس کو سب کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا لیکن اب پی ٹی وی والوں پر بھی مغرب کا رنگ چڑھ آیا ہے!
دراصل ہمارے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اصول پسند لوگ نہیں ہے ، کم ازکم ایک ملک میں رہنے والے باشندوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات پر سمجھوتانہیں کرنا چاہئے ، ایران اور چین جیسے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ،
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ چین کے وزیراعظم تھے شاید جن سے ایک کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ آپ انگلش میں کیوں نہیں جواب دیتے
تو انہوں نے جواب دیا
" کیا چین کی اپنی زبان نہیں"؟
اور یہ پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے!
ہمارے یہاں تو تعلیم کا معیار ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ بیکن میں اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جاتی ہے، ایجو کیٹرز میں ذرا درجہ اس سے نیچے ہے اور اس سے جیسے جیسے پرائیویٹ سکول نیچے آتے جاتے ہیں ، درجہ اتنا ہی کم ہوتا جاتا ہے ،
اور جب آتے ہیں آپ گورنمنٹ سکولوں کی طرف تو میں نے اکثریت یہی دیکھی ہے کہ پرائمری اور مڈل لیول کے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہت گر چکا ہے ! ظاہر ہے غریبوں کے بچے گورنمنٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں اس لئے ہمارے یہاں زیادہ تر وہ ہی بچے لائق فائق کہلائے جاتے ہیں جو سب سے اعلیٰ درجے انگلش فر فر بولتے ہیں اور وہ ہیں امیر طبقے کی اولاد!
آپ حیران ہو ں گے کہ میری دوست بتاتی ہے کہ میرے بھتیجے مجھ سےپو چھتے ہیں کہ پھوپھو بیلون کو اردو میں کیا کہتے ہیں ؟؟
امیر طبقہ زیادہ تر اپنے بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر ہی خوش ہوتاہے ، مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ ہم آج تک کیوں اپنے ذہنوں کو آزادنہیں کروا پائے ! انگلش بولنا کوئی ثواب کا کام تو نہیں ؟ آپ ہی بتائیے کہ پنجابی بولنے میں کیا گناہ ہے ؟؟ اگر بچہ پنجابی بولتا ہے تو بُرا کیوں سمجھا جاتا ہے ؟
میں یہ نہیں کہتی ہوں کہ آپ انگریزی نا سیکھیں میں خود انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہی ہوں ، اچھی چیز انسان کو جہاں سے بھی ملے اسے اپنا لینی چاہئے لیکن ایسا نا ہو کہ
" کو ا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا "
پنجابی کی اپنی کی ایک اہمیت ہے ، اپنا ایک مقام ہے ، یہ اتنے مزے کی زبان ہے کہ میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ آپ اگر اس کو متبادل ڈھونڈیں تو آپ کو کہیں نہیں ملے گا ،آپ دیکھیں کہ اگر ہم انگریزی کو اتنا زیادہ بولیں گے تو پنجابی کا تو نام و نشان مٹ جائے گا نا ! اور ہمیں تو فخر کرنا چاہئے کہ ہمیں اردو اور انگلش کے علاوہ اور بھی زبانیں آتی ہیں ۔
خیر دیکھئے ، غور کرئیے ، اپنی شناخت کو مت کھویں ، اپنا آپ ختم کرکے دوسروں کا رنگ مت چڑھائیں خود پر ، ورنہ ایک روز ایسا آئے گا کہ یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ختم ہو کر رہ جائیں گی ۔


جب بھی کوئی موقع ایسا آتا ہے کہ پاکستان کی بات کی جائے ، پاکستانیوں کی بات کی جائے ، پاکستان کی سیاست کی بات کی جائے ، پاکستان کے حالات کی بات کی جائے تو بس ایک لمحے کو دل کرتا ہے کہ بندہ کہے ،
"نو کمنٹس"
مگر نہیں یہ بھی اختیار میں نہیں ہے ، ہم یہاں رہتے ہیں ، ہمیں پاکستان ایسے ہیعزیز ہے جیسے کہ ہمارا اپنا گھر ، جیسے ہم روز اپنا گھر صاف کرتے ہیں ، ایسے ہی دل کرتا ہے کہ ہمارا ملک بھی صاف ہو ، جیسے ہم اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں ایسے ہی دل کرتا ہے پاکستان کے لوگ مل جل کر رہیں ، پر افسوس ہوتا ہے جب ہم ملکی سیاست پر کیچر اچھالتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہم تو خود ہر جگہ ہر بندے کے ساتھ سیاست کھیلتے ہیں ، بات غور کرنے کی ہے ، کبھی غور کرئیے گا کہ ہم اپنےحصے کا ایک روپیہ بھی کسی کو معاف کرکے راضی نہیں ہیں، جبکہ دوسروں سے دس روپے بٹورنے کو بھی ہر لمحہ ہر وقت ایسے تیار رہتے ہیں جیسے ہندوستان کی ٹیم پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ہرانے کے لئے ۔
خواب سا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا بندہ ہو جو سب کچھ ٹھیک کر دے ، ہر جگہ ، ہر معاملے میں انصاف ہو۔
پاکستانی ہونے پر مجھے آج بھی فخر ہے ، اور فخر اس بات کا ہے کہ ہاں یہ وہ ملک ہے جسکو حاصل کرنے کے لئے ہم نے ایسی ایسی ناقابل فراموش قربانیاں دیں ہیں کہ آج بھی سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، پاکستان کی ہسٹری کو نکال کر دیکھ لیا جائے ، بڑے بڑے علما، مفکر، صوفی لوگ آپ کو ملیں گے ، آج بھی اس ملک میں اتنا ہی ٹیلنٹ موجود ہے ، مگر کمی صرف ڈائریکشن کی ہے ، ہمیں ڈائریکشن نہیں ملتی ، کمی صرف اتحاد کی ہے ، ہم مل جل کر نہیں رہتے ، کمی صرف جذبے کو جوان کرنے کی ہے ، کوئی تو ایسا ہو کہ جو اس جذبے کو ابھارے ، جو یہ بتائے کہ ہم ہی تو نگران ہیں ، ہمیں خود نگرانی کرنی ہے ، اور اگر ہم ہی گمراہ ہو لئے تو پھر یہ گھر کیسے بچ پائے گا ؟ اگر ہم خود ہی ہتھیار پھینک دیں گے تو کس طرح سے تحفظ کا احساس رہے گا ؟
ہم بس یہ کہتے ہیں ، کہ جب تک زرداری ہے کچھ نہیں ہو سکتا ، یہ آج کی بات نہیں ، یہ قصہ برسوں پرانا ہے ، جب تک مشرف تھا تب تک بھی تو کچھ نہیں ہوا ، تب حالات تھوڑے ٹھیک تھے ، اب تھوڑے اور خراب ہو گئے ہیں ، اور زرداری انکل کے بعد جو آئے گا تب شاید اس سے بھی زیادہ خراب ہو جائیں !
مسئلہ سیاست میں نہیں ، ہمارے اپنے اندر ہے ، ہم تعمیری کام نہیں کرتے ، بس تخیل میں دیکھتے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ خواب دیکھتے ہیں اپنے ملک کی بہتری کے ، تو ایک اس میں تھوڑا سا حصہ تو ڈالیے ۔ قدم تو آگے بڑھائیے ، ایک بار اس خواب کی تعبیر کے لئے کوشش کر کے تو دیکھیے ! کیا خبر کہ آپ کے اس عمل سے کوئی متاثر ہو ، اور اپنا حصہ ڈالنے کو قدم بڑھائے ، کیا پتا آپ کسی کی آواز بن جائیں ، ایک بار اتحاد کا عہد تو کیا جائے ، اپنے حصے کی وفا کرنا پڑتی ہے تاکہ اندر بیٹھا ٖٖوکیل سوال وجواب نا کرے ، ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرکے یہ نا پوچھے کہ تم نے کیا کر دیا ،کونسا کارنامہ سر انجام دیا اور کس بنیاد پر دوسروں کو تنقید کا نشانہ کیوں بنائے ہو ؟
خیر دُعا ہے کہ پاکستان کا مستقبل اچھا ہو، ہمارا اچھے لیڈروں سے واسطہ پڑے ، ہم سب کے اندر برداشت ، تحمل اور اتحاد و اتفاق ہو، اور ہم دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنے حصے کا پودا لگائیں تاکہ آنے والی نسلیں یہ نا کہہ سکیں کہ قصور ہم لوگوں کا تھا ۔
إٓمین


میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو اعلیٰ ظرف ہو ں او ر اس قدر اعلی ٰطرف ہوں کہ وہ دوسروں کو کسی بھی معاملے میں شاباش دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ، بڑا مشکل ہو تا ہے شاید کسی کے لئے بھی کہ وہ کسی کو اپنے سے اوپر کا مقام دے ، اپنے سے اونچا بیٹھا دے ، اپنے سے زیادہ کامیاب ہونے دے ،
لیکن مسئلے کا حل صرف اسی بات میں چھپا ہے کہ جب تک آپ کسی کو کسی چھوٹے سے کام پر شاباشے نہیں دیتے ، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس میں کسی بھی بڑے کام کو کرنے کو حوصلہ پیدا نہیں ہوتا، اگر اک ٹیچر کسی سٹوڈنٹ کی پریزنٹیشن پر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا تو پھر اسے یہ امید رکھنے کا اختیار بھی حاصل نہیں کہ وہ ہی سٹوڈنٹ اپنے ٹیچر کا نام روشن کرے ، اچھے نمبر لے ، ریکارڈ قائم کرے ،
آپ خود ہی سوچیں کہ اگر ایک ٹیچر آٹھ ٖصفحوں کی اسائنمنٹ میں 4 غلطیوں کو لے کر سٹوڈنٹ کا اپنےپاس بلا کر اس کی نشاندہی کرتا ہے، اور باقی جو ٹھیک ہے اس کے لئے کوئی حوصلہ افزائی نا کرے تو سٹوڈنٹ کو دل بھی نہیں کرے گا کہ اسائنمنٹ کو کھول کر دوبارہ سے دیکھے ، لیکن اس کے برعکس اگر وہ پاس اسے پاس بلا کر اسے شاباشے دیتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ بہت اچھا کیا ، اورسٹودنٹ اگلی بار اس سے بھی زیادہ اچھا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ جو کامیابی کا نشہ ہوتا ہے کہ حوصلہ افزائی سے ملتا ہے ، اور ایک بار جب یہ نشہ کسی کو ہو جائے اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کامیابی کی سیڑھی پر اوپر تک کی سیر کر کے آئے ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ والدین کا اپنے بچوں سے ہوتا ہے اگر وہ ایک بار اچھے نمبر نہیں لے سکے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان کو لعن طعن شروع کر دی جائے یا پھر ایموشنل بلیک میل کیا کہ تم نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا وغیرہ وغیر ہ، بچوں کے ذہن پر بھی دباؤ ہوتا ہے کہ فلاں فسٹ آیا ، فلاں سیکنڈ آیا میں صرف پاس ہوا ہوں آپ بچے کی حوصلہ افزائی کریں اس کو شاباشے دیں اور کہیں کہ کوئی بات نہیں اگلی بار تم اس سے اچھے نمبر لو گے ۔
ساس کا بہو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتاہے ، ساس بہو کو طعنے کوسنے دیتی ہے لیکن ایک بار شاباشے نہیں دیتی ، اسے یہ نہیں کہتی کہ تم نے میرے بیٹے کے سب کام کرتی ہو، تم نے میرا گھر سنبھالا ، تم نے میری خدمت کی شاباش ، ایسا کرنے سے ساس کی عزت میں کوئی فرق نہیں آتا ، پر بہو کی خدمت کا جذبہ ریفریش ضرور ہوتا ہے ،
آپ کسی ملازم کو شاباشے دیے کر دیکھیں ، یہ ٹھیک ہے کہ آپ اسے اس کے کام کی تنخواہ دیتے ہیں ، لیکن پھر وہ بھی کام تنخواہ کے مطابق ہی کرتا ہے، آپ اسے شاباش دیتے رہیں وہ آپ کا کھانا نمک حرام نہیں کرے گا ۔
آپ نے شاید خودی بھی کبھی آزمایا ہو کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جو کرنٹ انسا ن کے اندر دوڑتا ہے وہ ہی دراصل کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ اگلا کام اس سے بھی اچھا ہو۔
تو انسان کو چاہئے کہ وہ خود کو اتنا اعلیٰ ظرف ضرور بنائے کہ دوسروں کو کھلے دل سے شاباش دے سکے ، تاکہ اس سے وابسطہ لوگ کو کامیابی تک پہنچنے کے لئے زیادہ وقت نا لگے ۔
ہمیں نرم خوئی کا حکم ہے - بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے فعل پر ہمیں بہت غصہ آ رہا ہوتا ہے - لیکن آپ اس کے باوجود کہ اس پہ غصہ کیا جانا چائے آپ غصہ نہیں کرتے ہیں - یہ ان کا کمال فن ہوتا ہے یا پھر وہ نان ڈگری ماہر نفسیات ہوتے ہیں - ایک بار ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا - میں ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں مری گیا - وہ بارشوں کا موسم تھا - اب میں جلدی میں تھا اور میں نے دو جوڑے ہی کپڑوں کے ساتھ لیے تھے - راستے میں موسلا دھار بارش ہوئی اور خوب برسی - اس شدید بارش میں باوجود بچنے کے میں شدید بھیگ گیا - میں شام کو مری پہنچا - میں خود بھیگ چکا تھا جب کہ دوسرا جوڑا میرے پاس تھا ، پانی اس میں بھی گھس گیا - اب میں سخت پریشان - اگلے روز میٹنگ بھی اٹینڈ کرنی تھی - خیر میں مال روڈ پر آگیا کہیں سے کوئی لانڈری وغیرہ مل جائے تا کہ وہ کپڑے سکھا کر استری کر دے - مجھے مال پر تو کوئی لانڈری نہ ملی ، البتہ لوئر بازار میں چھوٹی سی ایک دکان نظر آئی جس پر لکھا تھا " کپڑے چوبیس گھنٹے میں تیار ملتے ہیں " میں یہ پڑھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر کپڑے کاؤنٹر پر رکھ دیے - دکان کے مالک بابا جی نے کپڑوں کو غور سے دیکھا ، پھر بولے ٹھیک ہے " پرسوں شام کو لے جانا - جمعرات کی شام مغرب سے پہلے - "
میں نے ان سے کہا کہ " حضور آپ نے تو چوبیس گھنٹے میں تیار کرنے کا بورڈ لگایا ہوا ہے ؟"
وہ بابا جی (ذرا بڑی عمر کے تھے ) مسکرا کر بولے " ٹھیک ہے بیٹا چوبیس گھنٹوں میں ہی تیار کر کے دیتے ہیں - لیکن ہم روزانہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں - آٹھ گھنٹے آج ، آٹھ گھنٹے کل ، اور آٹھ گھنٹے پرسوں - یہ کل چوبیس گھنٹے بنتے ہیں - آپ کے کپڑے پرسوں شام چوبیسواں گھنٹہ ختم ہونے سے پہلے مل جائیں گے - "
اب میں حیران و پشیمان کھڑا بابا جی کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ انھوں نے کس طرح سے چوبیس گھنٹے پورے کر دیے اور میرے پاس کوئی جواب بھی نہ تھا -
آپ مراقبہ کریں ، تفکیر کریں ، یا خاموش ہو کر ایسے ہی بیٹھ رہیں - اس میں آپ کو ایک اصول پر ضرور عمل پیرا ہونا پڑیگا ، کہ آپ کے ارد گرد روشنی ہے - روشنی کا بہت بڑا تنبو ہے اور آپ اس کے نیچے بیٹھے ہیں - روشنی کی ایک آبشار ہے - نیا گرا فال ہے اور آپ اس کے امڈتے ہوئےجھلار میں نہا رہے ہیں -
روشنی کیوں ؟ میں نے پوچھا " خوشبو کیوں نہیں ، رنگ کیوں نہیں ، نظارہ کیوں نہیں ؟ "
پروفیسر نے کہا " اگر میں عربی
میں کہونگا تو تمھاری سمجھ میں نہیں آئے گا بہتر یہی ہے کہ میں اطالوی میں سمجھاؤں - آسان اور سادہ اطالوی میں اور تمھارے قریب ہو کر بتاؤں کہ الله روشنی دینے والا ہے - آسمانوں کواور زمین کو - مثال اس روشنی کی یہ ہے کہ جیسے ایک طاق ہو اور اس کے اندر ایک چراغ ........... اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں ، ایک قندیل میں اور وہ قندیل ہے جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ ، تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت والے درخت کا جو زیتون کا ہے اور جو نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف !
لگتا ہے کہ اس کا تیل روشنی ہے اگرچے اس میں آگ نہ لگی ہو ............. روشن پر روشن ، نور پر نور .............. الله جس کو چاہے اپنی روشنی کی آگ دکھا دیتا ہے ، اور بیان کرتا ہے - الله کی مثالیں لوگوں کے واسطے ہیں اور الله سب چیز جانتا ہے - "
میں نے کہا " یہ تو کسی مذھبی کتاب کا بیان معلوم ہوتا ہے ، کسی پرانے صحیفے کا - "
انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے کہا " خداوند زمین و آسمان کی رونق اور بستی ہے اور کائنات کی ساری مخلوقات کو اسی سے نور وجود ملتا ہے - چاند ، سورج ، ستارے ، سیارے ، معلوم اور لا معلوم ، حاضر اور غائب ، انبیاء ، اولیاء ، فرشتے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے - اور ان میں جو واضح اور پوشیدہ روشنی ہے - وہ اسی خزانہ نور کی بدولت ہے - یہی وجہ ہے کہ استاد ، گرو ، پیر مرشد ، شیخ اور ہادی ، باطن کے مسافر کا پہلا قدم اندھیرے سے نکال کر نور کی شاہراہ پر رکھتے ہیں اور پھر اس کی انگلی پکڑ کر قدم قدم چلاتے ہیں - "
" لیکن اس میں طاق کا کیا مطلب ہے ؟ " میں نے پوچھا " جس میں روشنی کی قندیل رکھی ہے ؟"
کہنے لگے یوں تو خدا کے نور سے کل کائنات کے موجودات روشن ہیں لیکن گیان ذات کے متلاشی کا جسم ایک طاق کی مانند ہوجاتا ہے - ایک دراز قد محرابی طاق کی طرح ، اور اس کے اندر ستارہ کی طرح کا چمکدار شیشہ قندیل رکھ دیا جاتا ہے - یہ شیشہ اصل میں اس کا قلب ہوتا ہے - جو ایک اینٹینا کی طرح عالم بالا سے متعلق ہوتا ہے اور اپنے سارے سگنل وہیں سے وصول کرتا ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
برسوں بیت جائیں گے۔
معتبر ہونے میں
عزتیں بنانے میں
لیکن
اِک خطا کی قیمت کا
اتنا سود بھر دو گے
عزتوں کی چادر کو
چاک چاک کر دو گے

پگڈنڈی پہ چلنا یوں
کہ پاؤں پھسل جائے
گر جو بھول ہوجائے
عمر بھر کی محنت کا
ساری نیک نامی کا
پردہ فاش کر دو گے۔
از ناعمہ عزیز
دو تین دن پہلے سے ہی ویلنٹائن سے متعلقہ شعر و اشعار کا سلسلہ اور ٹی وی پر ویلنٹائن کے موقع کو ترغیب ملنا شروع ہو گئی تو میں نے چھوٹی سے پوچھا یہ ویلنٹائن کو بھی عید کی طرح ہی منانے لگ گئے ہیں، خیر میں سوچ رہی تھی کہ میں ویلنٹائن ڈے پر کچھ نا کچھ لکھوں گی ، پر پھر میں نے سوچا کہ اگر میں نے ویلنٹائن کے حق میں لکھا تو بہت تنقید ہو گی ، پر اس وقت میں تنقید کی پروا کی بنا لکھ رہی ہوں ۔
میں ویلنٹائن کی ہسٹری میں نہیں جارہی ، میں اس جذبے پر لکھ رہی ہوں جو امر ہے، لافانی ہے، جس کا کوئی اختتام نہیں،
میرے لئے محبت لڑکا اور لڑکی کی جذباتی وابستگی کا نام نہیں ہے، محبت کے کئی روپ ہو تے ہیں، آپ کی ماں باپ کی آپ کی پروا کرتے ہیں، آپ کا ہر لمحہ خیال کرتے ہیں آپ کے بھلا سوچتے ہیں ، یہ محبت ہے، بھائیوں کے لئے بہنیں بلا جواز دعائیں مانگتی ہیں ان کی خوشیوں میں خوش اور غٕموٕںمیں دُکھی ہو جاتی ہیں ، یہ محبت ہے، بھائی بہنوں کے سر پر سا یہ شفقت ہو تے ہیں، ان کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں یہ محبت ہے ،
آپ اپنے رشتہ داروں سے ملتے ہیں، ان کی خوشیوں میں شریک ہو تے ہیں ، ان کے دُکھوں میں روتے ہیں، تو آپ کے اندر یہ سب ایک جذبے کے تحت ہو ر ہا ہو تا ہے، یہ پورا ایک نظام ہے، احساسات جذبا ت ہمیں نظر نہیں آ رہے ہوتے مگر وہ وجود رکھتے ہیں ، اور ان کی وجہ سے ہی ایک خاندان کے افراد آپس میں جُڑے ہوتے ہیں،
آپ کے دوست جن سے آپ دل کی بات کہہ لیتے ہیں، آپ کو اُمید ہوتی ہے کہ وہ بات جو آپ نے اپنے دوست سے کہہ دی ، اور اسے کہہ کر آپ کا دل ہلکا ہو گیا ، اب آپ کے دوست کے دل میں رہے گی اور اگر آپ اس سے مشورہ مانگتے ہیں تو یہ سب ایک جذبے کے تحت ہو تا ہے ، کوئی آپ کو اپنا سمجھتا ہے تو آپ کا کوئی کام کرتا ہے، اور اپنا سمجھنے میں خون کا رشتہ ہو یا نا ہو اگر احساس کا رشتہ ہے تو سمجھ لیں کہ وہ محبت ہے ،
آپ کسی بھولے کو بنا کسی وجہ سے راستہ دکھا دیتے ہیں، آپ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتے ہیں، آپ کسی کی مدد کرتے ہیں ، آپ کسی کو تسلی دیتے ہیں، آپ کسی کو اپنا خون دے دیتے ہیں ، آپ کسی زخمی کو ہسپتال پہنچا آتے ہیں، تو ان سب کے پیچھے آپ کے جذبات کا گہرا تعلق ہو تا ہے، اور جذبات میں سب سے برتر جذبہ محبت کا جذ بہ ہے۔
آج کل ہمارے ملک کے جو حالات چل رہے ہیں، جتنی فریسٹریشن ہے، جتنے مسئلے مسائل ہیں، اگر ا ن سب میں سے الگ ہو کر ایک دن ہم کوئی خوشی منا لیتے ہیں تو اس میں اتنی تنقید کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہی کہ ایک لڑکا کسی لڑکی کو لے کر ہوٹل میں جائے کھا نا کھائے ، گلاب کا پھول دے ، اور کہے آئی لویو، میں ا یسی محبتوں پر یقین کی قائل نہیں ہوں ۔
لیکن جذبہ محبت کے وجود سے ہم انکار نہیں کر سکتے ، پر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اُسے مثبت انداز میں نہیں لے سکتے ؟؟؟ کیا ہم اس جذبے کا دن نہیں منا سکتے جس کو لافانی بنایا گیا ؟؟
مجھے اس کو ویلنٹائن کہنے کی ضرورت نہیں ہے ، پر بھر بھی میں کہوں گی گلاب رت کا یہ دن میں نے اپنی دوستوں کے ساتھ منایا، چند لمحے خوش ہو کر مجھے ہرگز نہیں لگا کہ میں کوئی گناہ کر رہی ہوں۔ اور نا مجھے اس پر کوئی شرمندگی ہے۔

لوگ اکثر کہتے ہیں کہ دنیا میں انصاف نہیں رہا ، ہر کسی پر ظلم ہو رہا ہے، ہر کسی کو اپنا آپ مظلوم نظر آتا، ہر کسی کویہ لگتا ہے کہ میں ہی بیچارہ ہوں ، پر میں نے تو جب بھی مشاہدہ کیا مجھے یہ ہی نظر آیا کہ دنیا میں ہر روز ہر کسی کے ساتھ انصاف ہوتا ہے اور ایسا انصاف ہوتا ہے کہ اس دنیا کی کوئی عدالت ویسا انصاف نہیں کر سکتی، سب سے بڑا جج تو انسان کے اندر بیٹھا ہوتا ہے، جو ہمیں بتا تا ہے کہ یہ نا کرو وہ نا کرو، اگر ایسا کرو گے تو نقصان ہو گا ، اگر ویسا کرو گے تو تباہ و برباد ہو جاؤ گے، ہاں یہ جو(دل) ہم جھوٹا وکیل ہائر کر لیتے ہیں نا دلائل دینے کو اِسے اگر نوکری سے برطرف کر دیا جائے تو سچائی، جھوٹ، ناانصافی اور انصاف ہمیں ٹھیک ٹھیک نظر آنے لگے،
دوسروں پر الزام دھرنا بڑا آسان کام ہے، پیسے نہیں لگتے نا اور مزہ آتا ہے، پر اپنے اندر جھانکنا بڑا مشکل ہے، کیا کریں، ہم تو یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں بُرا کہے تو ہم اپنے آپ کو کیسے بُرا کہہ سکتے ہیں؟؟ مگر ہمارے کہنے یا نا کہنے سے کیا ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ عدالت روز لگتی ہے، انصاف روز ہوتا ہے، وہ جس نے ہمیں تخلیق کیا وہ ماسٹر مائنڈ خود جج کی سیٹ پر بیٹھ کر ایسا انصاف کر تاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، میں اکثر مثال دیا کرتی ہوں کہ اگر آپ کسی کی بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں کا احترام نہیں کرتے، ان کو عزت نہیں دیتے تو پھر اپنے ذہن میں یہ خیال مت لائیں کہ آپ کی بہن ، بیٹی، بیوی، اور ماں محفوظ ہیں، چاہے آپ نے ان کو کتنی ہی مضبوط دیواروں کے اندر رکھ کر ان پر کتنی ہی پاپندیاں کیوں نا عائد کی ہوں، انصاف کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے،
ایک ساس اپنے بیٹے کی بہو بیاہ کر لاتی ہے ، چار دن سُکھ کے گزرتےہیں اور پھر وہی چخ چخ جو ہر گھر کا معمول ہے، اور وہی ساس ایک ماں بھی جو یہ چاہتی ہے کہ اُس کی بیٹی سُکھی رہے، ہنستی مسکراتی رہے، بھئی جب وہ کسی کی بیٹی کو سُکھ نہیں دے گی تو اس کی بیٹی کو دنیا کے کسی کونے سے سُکھ نہیں ملنے والا!
اس لئے کہ انصاف کرنے والا اوپر بیٹھا ہے۔
اگر آپ کسی دفترمیں نوکری کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سات ہیرا پھیری کا کام بھی جاری ہے تاکہ آپ اپنی اولاد کو اچھا کھلا پلا سکیں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں ، اور آپ کا گھرانہ خوشحال رہے ، تو یہ مت بھولیں کہ حرام کھلا کر آپ اپنی اولاد کے خواہشات تو پوری کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اولاد ہی آپ کو دھوکہ دینا شروع کر دے تو پھر آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرانا پسند کر یں ؟؟
دنیا اس اصول پر چلتی ہے کہ اچھادو اور اچھا لو، بُرا دو اور بُرا لو۔
کل ہم بیکن کو پڑھ رہے تھے ، بیکن ایسی خوبصورت بات کہتا ہے کہ بندہ ایک لمحے کو سوچتا ہی رہتاہے ، ٹاپک تھا آف گریٹ پلیس ، گریٹ پلیس ، مطلب آپ کے پاس کوئی اختیار ہونا، کہ جیسے ہمارے زرداری صاحب کے پاس ہے، تو بیکن کہتا ہے کہ جب آپ لوگوں پر اختیار حاصل کر لیتے ہو تو اپنی ذات پر اختیار کھو دیتے ہو، جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، ملک و قوم کا صدر جس کے پاس اتھارٹی ہے، اُسے کوئی چرسی بھی اُٹھ کر گالی دے دیتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں، پر یہ بات جب ایک ایسے بندے کی ذات پر آتی ہے جس کی معاشرے میں کوئی خاص حثیت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجا تا ہے ، ہے نا عجیب بات؟
بندہ پوچھے زرداری انسان نہیں ؟ وہ جن ہے کہ سارے کام ایک ہی دن میں کر دے ؟ آپ اپنے آپ کو کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ نے کیا کیا ؟؟ اگر گیس نہیں ہے، بجلی نہیں ہے تو اس میں اکیلا زرداری قصور وار تو نہیں ہے !! یہ جو گیس چور بجلی چور بیٹھے ہیں یہ کس کھاتے میں جائیں گے ؟ اور شاعر کیا خوب فرماتا ہے کہ
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔
ارفع کریم کی مثال ہمارے سامنے ہے ، آج دینا ا ُسے سلیوٹ کرتی ہے، اس پر فخر کرتی ہے، مگر اس کے جو ایک مثال قائم کر دی کہ کچھ کر کے دکھاؤ ، کچھ بن کے دکھاؤ اُسے کتنے لوگ فالو کرئیں گے؟ یا گھر بیٹھ آپ سب گھر بیٹھ کر طعنے کوسنے دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟؟؟
خیر بات انصاف سے نکل کر کہاں آ گئی،
میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ اس دنیا میں کوئی بندہ مظلوم نہیں ہے، ہر کسی کو اس کے کئے کا روز ملتا ہے، اور کیسا خوب انصاف ہے کہ جیسا جرم ویسی سزا!!!
اس لئے اپنے اندر جھانکو، خود کو بہتر کرو، کوئی جو کرتا ہے کرے، لیکن آپ اکیلے ہی دنیا میں آئے تھے اور اکیلے ہی رب کی بارگاہ میں دنیا اور آخرت میں جواب دہ ہو۔
قلزم ہستی میں تو اُبھرا ہے مانند ِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی۔

کسی کے چھوڑ جانے سے،
سانسوں کی مالا کا،
دھاگا کب ٹوٹا ہے،
تو پھر یہ سوگ کیسا ہے!
یہ دل کا روگ کیسا ہے!
یہ کیسی آگ لگتی ہے!
یہ کیسا درد اُٹھتا ہے!
کہ مجھے کو چین نہیں آتا!
چلو اک کام کرتی ہوں،
وہ سب میں بھول جاتی ہوں،
ہاں میں اِک قبر بناتی ہوں،
کہ جس کے مقبرے پر میں،
تمھارا نام لکھتی ہوں،
تمھاری یادوں کے سائے،
میں اس میں دفن کرتی ہوں،
چلویہ فرض کرتی ہوں،
کہ تم کو بھول جاتی ہوں،
مگر یہ سب ناکارہ ہے،
تمھارے بن نا پہلے تھا،
نا اب میرا گزارہ ہے۔

ناعمہ عزیز :)


یہ سال بھی گزر گیا ، جب بھی میری سالگرہ آتی ہے اور جب بھی جنوری کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو میں ایک بار پیچھے کی طرف ضرور نظر ڈالتی ہوں ، ہمیشہ میں ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ’’ کل میں کیا تھی اور آج میں کیا ہوں ‘‘؟؟؟؟
ہاں اس بار جب پچھلے سال پر ایک نظر ڈالی تو اپنے اندر ایک فرق واضح محسوس کیا، اب میں بہت حد تک حقیت پسند ہو گئی ہو ں ، خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنا چھوڑ دیا ہے، پتا نہیں کیوں جو چیز نا ملے ہمیں اُسی میں اتنی کشش کیوں نظر آتی ہے !! مجھے ہمیشہ گلہ رہتا تھا کہ یہ چیز مجھے کیوں نہیں ملی ، لیکن اب میں نے زندگی سے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے، اور شاید سب کو ہی سیکھ لینا چاہئے ، ہم جتنی جلدی یہ بات سیکھ لیتے ہیں ہمارا اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے، لوگ صرف ایک لفظ ’’زندگی‘‘ کو بہت سے مفہوم پہناتے ہیں ، لیکن میرے خیال سے زندگی بی۔ اے کے (بی ) پیپر کے جیسی ہوتی ہے ، بالکل ان ایکسپکٹڈ!!
اور میرے خیال سے زندگی ٖصرف اور صرف compromise and sacrifices
نام ہے ، ہمیں کبھی کسی خواہش پر سکرفائز کرنا پڑتا ہے ، اور کبھی کسی انسان سے، کبھی اپنے آپ سے !!
اگر ہم سیکریفائز اور کمپرومائز کرنا سیکھ جاتے ہیں تو زندگی آسان ہو جاتی ہے، پھر آپ کے پاس کچھ ہو یا نا ہو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، اور اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں جب کوئی چیز قسمت میں ہے ہی نہیں تو پھر افسوس اور دُکھ کیسا؟؟
اور دراصل پچھلے سارا سال میں نے صرف یہی ایک بات سیکھی ہے اور اب مجھے اتنی عادت ہو گئی ہے کہ کچھ خاص فرق نہیں پڑتا!!!
اور دوسری بات ، جو میں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ حال میں خوش رہو، یہ ٹھیک ہے کہ ماضی ایک غذاب ہوتا ہے ، ماضی ایک ایسا اندھیرا کمرہ ہے جس کی تاریکی ہمیں کھنچتی ہے ، مگر اس تاریکی اور تنہائی میں سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ہوتا ، ایسا پچھتاوہ جس سے صرف اذیت ہوتی ہے، اشقاق احمد صاحب ٹھیک فرماتے ہیں ، ہم میں سے بہت سے لوگ ماضی کے پچھتاوں میں زندہ رہتے ہیں اور کچھ لوگ مستقبل کے خوف میں، حال میں رہنے کا ہنر کسی کو نہیں آتا،
اور آپ کسی ایک لمحے کو ،، وہ ایک لمحہ جس میں آپ کو سانس آ رہی ہے ، صرف اس لمحے میں جی کر دیکھیں ، جو گزر گیا وہ تو موت کی طرح ہے جو کہ کبھی واپس نہیں آسکتا ہے ، جو آنے والا ہے ، اُس کے بارے میں کیوں فکر مند ہونا جب آپ کو اپنی سانس کے رک جانے کا بھی علم نہیں ہے ؟؟؟ تو پھر اُس لمحے میں کیوں نا رہا جائے جو ہمارے پاس ہے ؟؟؟ اُسے کیوں نا خوشی سے بھر پور کر لیا جائے !!!
میری طرف سے سال نو سب کو مبارک۔

اور اس دعا کے ساتھ کہ یہ اور آنے والے سب سال میرے سب بہن بھائیوں ، شاکر بھیا، بلال بھیا، عائشہ باقر ، سامعہ، صالحہ سب کے خوشیاں اور کامیاں لے آئیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو صحت و تندرستی دے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے ،
اور آپ سب کی نیک خواہشات کو پورا کرے، اور پاکستان میں امن ہو جائے۔آمین

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers