2012 کا سورج غروب ہو گیا !
ہاہ !!!!
ہر سال یونہی تو ہوتا ہے۔بڑی تیزی سے وقت چلتا ہی جا رہا ہے۔ زندگی گزر رہی ہے اور گزرتی ہی جارہی ہے۔ 2012 ہی نہیں ہر سال ہی آتا ہے اور آ کر چلا جاتا ہے۔ کتاب حیات میں کئی باب کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ کئی ٍ صفحات کالے ہوچلے ہیں ۔ کہیں تلخ اسباق کی تلخی ہے اور کہیں شریں لفظوں کی مٹھاس ہے۔
دنیا میں آئے اتنا عرصہ ہو چلا ہے ۔ ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھا تو خیال ہے کہ زندگی کیا ہے !
تو محسوس ہوا کہ زندگی ریل گاڑی کی طرح ہے آہستہ آہستہ سب ہی اپنی زندگی کی گاڑیوں کو لے رواں دواں ہیں ۔ کہیں رُک جاتی ہے ۔ کہیں چلنے لگتی ہے ۔ لوگ اس میں سوار ہوتے ہیں اور اپنے مطلوبہ اسٹیشن پر اتر جاتے ہیں ۔ جذبات میں ہلچل ہونے لگتی ہے ۔ خون جوش مارتا ہے لیکن یہ وقت بڑا ظالم ہے ۔ ہر زخم کو بھرتا ہی چلا جاتا ہے !
زندگی ایک کتاب کی طرح ہے ! لفظ بکھرے پڑے ہیں ! فہرست کی ترتیب ہو چکی ہے مگر آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ ابواب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، کتاب کے صفحات تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں ۔ محبتوں سے دور کا آغاز ہوتا ہے نفرتوں سے آشنائی ہوتی ہے ۔ جنون ہوتا ہے تو ہم وہ سب کرتے ہی چلے جاتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں ! پھر موجوں کے اضطراب کو سکون میسر آتا ہے ۔ پچھلے صفحات پر نظر ڈالتے ہیں تو ڈھیر ساری غلطیوں کا پچھتاوا ڈسنے لگتا ہے ۔تجربات کی دنیا وسیع ہو جاتی ہے مگر وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے ۔
زندگی یہی ہے شاید !!

ہر دن کا سورج چڑھتا ہے غروب ہوتا ہے ۔ دن پورے ہو جاتے ہیں ۔ سال گزر جاتا ہے ۔ اور پھر دن پورے ہوتے ہیں تو زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے ۔
ہر سال نیا سال آنے کی بڑی خوشی ہوتی تھی ! اس بار نہیں ہوئی ۔ پتا نہیں کیوں ۔ جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو ہم مکمل ہی بے سکون ہو جاتے ہیں۔ بڑے عرصے سے زندگی بے سکون ہے ۔ حالات میں ڈھالنے کا سلیقہ نہیں آرہا ! خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے ۔ اذیت بڑھ جاتی ہے ، زندگی سے وحشت ہونے لگتی ہے اور موت سے خوف آتا ہے ۔ پر پھر بھی ہم زندہ ہے پتا ہے کیوں ؟ کیوں کہ ہمیں اپنے حصے کا جینا ہی ہے ۔ غم کا برتنا نہیں آیا تو بھی ! زندگی نہیں گزر رہی یہ ہمیں لگتا ہے مگر زندگی کی گاڑی اب بھی رواں ہے اور رہے گی۔ جینا بھی آہی جائے گا، شاید کچھ اور وقت لگ جائے۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی ڈھیروں دعائیں میرے پیاروں کے لیے میرے اپنوں کے لئے ، خدا ان کو سدا سلامت خوش و مطمئن رکھے اور سب کے لئے آسانیاں عطا فرمائے آمین

1 comments:

اسد حبیب نے لکھا ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور آج کے اس مصروف دور میں بہت کم لوگوں کو اس کا ادراک ہوتا ہے!

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers