نفس پرستی انسان کی فطرت ہے، اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس فطرت سے آزاد ہیں، اپنی مست دنیا میں مگن اس سے لو لگا کے اس دنیاوی سفر کے اختتام کا انتظار کر رہے ہیں، یہ زمین کسی بشر کے لئے ایسی ہی ہے، جیسے کسی مسافر کے لمبے سفر کی تھکن سے آرام لینے کو چند لمحے کسی پیڑ کے نیچے سستا لینا، جیسے فضاؤں میں سفر کرتے کسی جہاز کا چند گھنٹے بادلوں پر رینگنا، موت اور زندگی کے درمیان بس اتنا ہی فاصلہ ہے، مگر اس فاصلے میں نفس ہرستی حائل ہو گئ ہے، بندہ موت کی فکر ہی نہیں کرتا، وہ ایسا نفس کی بھوک مٹانے میں مصروف ہے کہ خود کو ہی بھول گیا، وہ کیا ہے کیوں ہے ! یہ کونسا سفر ہے جو وہ طے کر رہا ہے؟ اور اس کی منزل کیا ہے؟ یہ کونسا امتحان ہے جو وہ دے رہا ہے، اور نتیجہ کیا ہو گا؟ یہ کونسی آزمائش ہے جس سے وہ گزر رہا ہے ! اور کیا وہ اس میں سرخرو ہو پائے گا؟

یہ سوال تو زہن میں آتا ہی نہیں، ضمیر کو لوریاں دئیے رکھتا ہے، سو جا سو جا ! کہ کہیں جو ضمیر جاگ جائے گا تو نفس پرستی چھوڑنا پڑ جائے گی، کہیں جو عدالت لگ گئی تو جواب دینا پڑ جائے گا، کہیں جو ناکام ہوئے تو پچھتاؤں کی آگ میں جلنا پڑ جائے گا!

ہر بندے نے اپنا شیطان پال رکھا ہے، فرق یہ ہے کسی کا بہت بڑا ہے، کسی کا درمیانہ کسی کا ذرا چھوٹا، اور اسی شیطان کا نام ہے نفس!

یہ دراصل نفس کی خواہشات ہیں کہ جن کے پیچھے بھاگتا انسان اپنی ہڈیاں گلا دیتا ہے، لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا، ایک کے بعد ایک، پھر ایک کے بعد دو، دو کے بعد چار اور یوں ان گنت، بے انتہا خواہشات، نا ختم ہونے والی، مگر سانسوں کی ڈوری کا وقت مخصوص کر دیا گیا ہے، بندے کو پاپند کر دیا گیا ہے، حدود لاگو ہے، بندہ بشر ان کو پاٹ نہیں سکتا مگر پاٹنے کی کوشش کی میں گرتا ہے، اٹھتا ہے، اور پھر انہی راستوں پر چلنے لگتا ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ نفس پرستی کا سفر ختم نہیں ہو جائے گا، یہ تو لا محدود سفر ہے، یہ وہ سڑک ہے جس کا کوئی اختتام ہی نہیں، یہ وہ بازار ہے جہاں گلیاں ہی گلیاں ہیں،چھوٹی بڑی، یہ ناختم ہونے والا موسم ہے، یہ وہ پہاڑ ہے جو اونچے سے اونچا چلا جاتا ہے، مگر رکتا نہیں، ٹھہرتا نہیں، بس بندے کو رکنا پڑتا ہے، جب وہ بے بس ہو جاتا ہے، لاچار ہو جاتا ہے، جب نفس پرستی کے پیچھے بھاگتے وہ تھک جاتا ہے، اور جب اس کا وقت قریب آجاتا ہے، جب اسے اس فانی زندگی سے لافانی دنیا میں بھیجنے کا وقت اس کے سر پہ آن پہنچتا ہے تو شاید تب اس پر ادراک کے دورازے وا ہوتے ہیں کہ بندہ بشر کا پیٹ صرف مٹی سے بھر سکتا ہے ورنہ دنیا کی کوئی شے ایسی نہیں جو اس کی بھوک کو ختم کر سکے۔۔۔

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے

کہیں جو عدالت لگ گئی۔ تو جواب دینا پڑ جائے گا،
صحیح۔۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers