بچپن میں آپ سب سے ایک سوال ضرور پوچھا گیا ہو گا۔

ہم کون ہیں؟

آپ نے یہی جواب دیا ہوگا۔

ہم مسلمان ہیں۔

میں ’’داستان ایمان فروشوں کی‘‘ پڑھ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ ایک اس دور کے مسلمان تھے جن کی زندگی کا مقصد تھا، ایک عز م تھا، ان کے اندر کچھ کر دینے کا جنون تھا، مسلمان چاہتے تھے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی جانیں تک قربان کر دینے کو تیار ہو جاتے تھے اور صلیبی چاہتے تھے کہ اسلام دنیا کے نقشے سے مٹ جائے اور اس مقصد کے لئے وہ کس قسم کے گندے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے،

صلیبی کہتے تھے کہ ان کا مقصد کامیاب ہو گا ایک دن مسلمان نام کے مسلمان رہ جائیں گے ان کے کردار میں مسلمانوں کا کوئی عنصر نہیں ہو گا۔

تب بھی مسلمان نوجوانوں کو کس کس راستے پے ڈالا گیا ان کے کرداروں کو کچلا گیا ان کو راستے سے بھٹکانے کے لئے انہی کی بہن بیٹیوں کو اغوا کر کے تربیت دی گئی اور انہی کو اس کا کردار خراب کرنے کی خاطر استعمال کیا گیا۔

یہ تو میں نے ایک مختصر سی بات کی ہے ایک خلاصہ پیش کیا ہے،

اس کے بعد اگر ہم پاکستان کو حاصل کرنے پہ نظر دوڑائیں تو دیکھتے ہیں کہ ہندو پاکستان برصغیر کو تقسیم کرنے کے حق میں نا تھے ، وہ مسلمانوں پہ اپنی حکمرانی کرنا چاہتے تھے ، پاکستان بنانے کا عمل اور مسلمانوں کا جذبہ تب بھی قابلِ دید تھا، آفرین ہے ان مسلمانوں پہ جنہوں نے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیا بیٹوں کی عزتیں لوٹی گئیں ، بچوں کو قتل کیا گیا ، کیا نہیں کیا گیا تھا؟؟؟؟ ہم نے وہ روح فرسا منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے ، ہم اس خون ریزی سے واقف ہی نہیں ہیں۔

چلئے کچھ نظر آج کے پاکستان اور مسلمانوں پہ نظر ڈال لیں۔

ہماری نوجوان نسل آج بھی اسی بے راہ روی کا شکار ہے صلیبیوں کا کہا آج پورا ہو گیا۔ ہم لو گ کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟

انٹر نیٹ پہ چیٹینگ !!! موبائل پہ میسج!!! لڑکیوں کا پیچھا کرنا!!! ان پہ گندے غلیظ جملے کسنا!!!

ہماری نوجوان نسل یہ سب مشغلے بہت عام ہیں، سوچنے کی بات ہے ہمارے درمیان تو صلیبی نہیں آ گئے !!!

جی ہاں ایسا ہی ہے ہمارے ہاں بھی صلیبی موجود ہیں! زرداری صاحب اقتدار میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں ؟؟؟ امریکہ سے حرام مال لے کے کھا رہے ہیں ۔

جس قوم کا حکمران ایسا ہے اس کی قوم کا کیا حا ل ہو گا؟ جب حکمران کا کردار ہی بلند نہیں تو قوم کیسے بے راہ روی کاشکا ر نا ہو؟؟

ہمارے حکمران اتنے اچھے ہیں کہ انکو پروا ہی نہیں کہ قوم کی بیٹی کافروں کے نرغے میں ہے؟؟

ہمارے یہاں دشمنوں کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جاتا ہے اور اپنوں کو مار مار کے ان سے وہ جر بھی اگلوا لیا جاتا ہے جو انہوں نے نا کیا ہو، ہمارے اپنے ہی شریفوں کو مجر م بنا دیتے ہیں!

ہمارے ہی ملک میں آ کے دشمن ایک بندہ مار کے چلے جاتے ہیں اور ہمیں پروا ہی نہیں۔

ہماری نوجوان نسل بگاڑ کا شکار ہے اس میں زیادہ ہاتھ والدین کی عدم تو جہی کا بھی ہے کہ جس عمر میں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے گلے میں لگام ڈالیں اس عمر میں وہ بچوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں! اور ایسی عمر میں جب بچے کو اپنی زندگی کے اہم راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اسے خالی ذہن چھوڑ دیا جائے تو وہ بھٹک جاتا ہے!

اور پھر جس راہ پہ چلتا ہے وہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہوتا!! معاملہ لڑکیوں کو ہو یا لڑکوں کا میں اس حق میں ہی نہیں ہوں کہ آپ ان کو کے ذہنوں کو آزادی دیں ۔ ’خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے‘

میرے مشاہدے کے مطابق ہماری 80 فیصد نسل بگاڑ کا شکار ہے۔

جن میں 50 فیصد لوگ وہ ہیں جو محبت میں ناکام ہو کر بھٹکتے پھرتے ہیں، موت کی باتیں کرتے اور کچھ تو ایسا کر بھی گزرتے ہیں!

اور باقی 20فیصد لوگ وہ ہیں جو ڈگریاں لے بیٹھے ہیں اور ان کو کوئی نوکری ہی نہیں دیتا! رہے 10 فیصد تو وہ اپنے خاندا نی مسئلے مسائل کاشکار ہو ئے ہیں ۔

ہم بس اپنی ذات کو سوچتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کا۔

اسلام کی سر بلندی جیسے مقاصد تو سرے سے ہی دم توڑ گئےہیں۔ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بیرون ملک جا کے لوگوں کو برتن دھونا منظور ہے جس میں اپنی عزت نفس کئی بار کچلی جاتی ہے! مگر پاکستان کو سنوارنا ہمارا کام نہیں ہے۔

ہم کسی کی بھلائی کیا سوچیں گے ہم تو خود اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ہمارا فائدہ ہوجائے کسی کا نقصان ہوتا ہے تو ہمیں اس سے کیا!

ہمارا کیا رتبہ ہے؟ ہمارا کیا مقام ہے؟

ہمارا کردار کس قدر پاکیزہ ہے؟ ہم تو گناہوں میں لتھڑے ہو ئے لوگ ہیں!

ہم پہ کونسی رحمت ہو گی؟ ہماری دعاؤں میں کیا اثر ہو گا!

الٹا آئے روز کوئی نا کوئی آزمائش آئی ہی رہتی ہے!

ہم برائے نام مسلمان ہیں ! اور میرے خیال سے ہم وہ مسلمان بن گئے ہیں جو صلیبی ہمیں دیکھنا چاہتے تھے!

کیا ہمیں اپنی اسی حالت پہ افسو س نہیں کرنا چاہئے!!

8 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

جس دن ہم دوسروں کی طرف ديکھنا چھوڑ کر اپنا محاسبہ کرنا شروع کر ديں گے اُس دن سے ہمارا ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائيں گے

م بلال نے لکھا ہے

باتیں تو آپ کی بالکل ٹھیک ہیں لیکن روشن خیالی کا کیا کیا جائے جو اس طرح کی باتیں کہنے والوں کو دقیانوس کہتے ہیں۔

ویسے یہ بات تو آپ کی سو فیصد درست ہے
”انٹر نیٹ پہ چیٹینگ !!! موبائل پہ میسج!!! لڑکیوں کا پیچھا کرنا!!! ان پہ گندے غلیظ جملے کسنا!!!
ہماری نوجوان نسل یہ سب مشغلے بہت عام ہیں،“
مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم لوگ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھ رہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔۔۔آمین

عادل بھیا نے لکھا ہے

آپکی سوچ کی قدر کرتا ہوں ماشاءاللہ۔ اللہ ہم سب کو ایسے ہی سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللّٰھم اغفر ورحم وانت خیر الراحمین

آپکے بلاگ میں تھوڑی سی کوشش سے بہت سی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ مسئلاً سائیڈ بار کے گیجٹس، تشہیر کے ذرائع اور کُچھ مزید توجہ سے بلاگ چمک اُٹھے گا۔

noor نے لکھا ہے

بہت بہت شکریہ محترمہ . . .

درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھوں . . .

بس . . . . . ہمارا حال تو یہ ہے کہ . . . ایک دو چاول نہیں پوری کہ پوری دیگ خراب ہو گئی ہے . .. ہر ایک کی اصلاح کی ضرورت ہے . . صرف حکمرانوں پر ہی انگلی اٹھانے کا کوئی مطلب نہیں ...

بس اللہ ہی ہمارے حال پر رحم کرے . . . .

جزاک اللہ

visit my blog : http://noon-meem.blogspot.com

noor نے لکھا ہے

محترمہ . . میں اردو بلاگ پر بالکل نیا ہوں . . اور محترم م بلال بھائی و محترم جہانزیب صاحب کی راہنمائی سے اپنا بلاگ بھی بنا لیا ہے الحمد للہ . . مگر مجھے اس میں اردو ایڈیٹر لگانا ہے تو کیا آپ اس بابت میری کچھ مدد کر سکتی ہیں ؟ ؟ ؟

آپ کے جواب منتظر - نورمحمد

http://noon-meem.blogspot.com/

hodekarnoorgmail.com
noor_03@rediffmail.com

Unknown نے لکھا ہے

افتخار انکل آپ نے بالکل ٹھیک کہا اگر ہم اپنا محاسبہ شروع کر دیں تو سب سنور جائے ۔ مگر افسوس آج کے انسان کا یہ حال ہے کہ ’ایک چوری پھر سینہ زوری‘
یعنی ہم غلطی اور گناہ کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔ ہم موت کو بھولائے بیٹھے ہیں ۔ کیا فائدہ کہ سانسیں آخری ہوں اور انسان یہ چاہے کہ اسے اس کے گناہوں کا ازالہ کرنے کا موقع دیا جائے!!!!!!!!!!!

Unknown نے لکھا ہے

بلال لالہ جس دن مسلمانوں نے غلطی کو غلطی اور گناہ کو گناہ تسلیلم کر نا شروع کر دیا اس دن ہم پھر سے دنیا کو اسلام کا سبق دے سکیں گے۔

Unknown نے لکھا ہے

نور لالہ حکمرانوں سے مراد یہ تھی کہ،
قائداعظم کی قیادت میں پاکستا ن حاصل کیا گیا اور آپ اگر تاریخ یہ نظر ڈالیں تو آپ یہ ضرور احساس ہو گا کہ قائداعظم کی قیادت میں ساری قوم کا جذبہ قابلِ دید تھا ، میں سلام پیش کرتی ہوں ان بوڑھوں ، جوانوں ، عورتوں اور ، بہنوں ، بیٹیوں اور طالبعموں کو جنہوں نے قائداعظم کا قدم با قدم ساتھ دیا اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ آج کے مسلمان کو بھی ضرورت ہے صلاح الدین ایوبی، نور الدین زنگی اور قائداعظم جیسے عظیم لوگوں کی قیادت کی۔

اردو ایڈیٹر کے لیے اگر آپ کسی استاد سے پوچھیں تو وہ آپ کو زیادہ بہتر طور پر گائیڈ کر پائے گا کیوں کہ ابھی میں بھی یہآں نئی ہوں اور میرے بلاگ پہ جتنی بھی تبدیلیاں آپ کو نظر آ رہی ہیں وہ میرے بھائی کی مر ہون منت ہیں:(

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers