با با آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ؟شہر کا رخ بھی کرتے ہیں؟
میں نے آنکھیں موندے بظاہر تھکن سے چُور نظر آنے والے بابا سے پوچھا ۔
’’ ہماری کوئی ایک جگہ مقرر نہیں ہوتی ۔ اور ہمیں خؤد بھی یاد نہیں رہتا کل کہاں تھے ور آج کہاں ہیں‘‘
ان کی آنکھوں نے سرخ ڈوروں نے میرے اندر کچھ خوف سا جگا دیا۔
’’ ہم جاہ جاہ پھرتے ، نگر نگر گھومتے اور پھر چرسا بھر زمین کی چادر اوڑھے سو رہتے ہیں۔ سکون کہیں بھی نہیں ہوتا ۔ بس اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس تک پہنچنے کے لئے اندر دھیان لگانا پڑتا ہے۔ یہ جو شخص مٹی کی چادر اوڑھے پڑا ہے نا ۔ برسوں پہلے ایک عام شخص تھا ۔ روٹی ، کپڑا، مکان کے چکر میں ذلیل و خوار ہونے والا شخص ۔ یہاں آیا تو اپنی پریشانیؤن کا حل سو چنے کو اسی پہاڑ پر بیٹھا۔ اور اسے ان کاحل مل گیا اس نے اپنے اندر دھیان لگایا ۔ اور فطرت کی گہرائی میں بھکرے سکون نے اسے اندر کے دھیان میں پکا کر دیا ۔ اور پھر اس نے اس دھیان کو ٹوٹنے نا دیا ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا بس کچھ بس یہیں کا ہو رہا ۔۔۔۔۔ اب تک یہیں ہے‘‘


لیکن کیا ، دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے یوں گھبرا کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کے نام کی مالا جپتے رہنا بہت آسان نہیں‘‘
’’کم فہم انسان ہے نا تو عشق کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ عشق کی دیوانگی کو کیا سمجھے گا، عشق پہ کسی کا زور ہوتا تو دنیا میں کوئی دیوانہ نا ہوتا، تو عشق کو آسان سمجھتا ہے۔ ایک بھی منزل عبو کر کے دکھا تو تجھے جانوں۔ ہر منزل پہ انگنت کشٹ ہیں اور ساری بات نصیب کی ہے۔ کسی کے نصیب میں عشق ہے اور کسی کے نہیں ‘‘۔


میں بابا کے لہجے میں اپنے لئے کرختگی دیکھ کر سہم سا گیا۔
یوں لگا جیسے میں نے عشق کی تو ہین کر کے بابا کا دل دکھایا ہے۔
’’ بابا عشق کا یقین کیسے آتا ہے۔‘‘
’’یقین، میں تیری کج فہمی پہ حیران ہوں کیا تو نے زندگی میں کبھی عشق نہیں کیا۔ کسی بندے سے بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ جو عشق کی پہلے منزل ہے، تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ عشق تو خود اپنا یقین ہے۔ جب یہ ہو جائے تو اس سے بڑا یقین اور کوئی نہیں رہتا‘‘۔
مجھے اپنے گئے گزرے عشق پہ حقارت ہونے لگی وہ جوہمیشہ بے یقینی کا شکار رہا۔ عین وصل میں ہجر کا ڈر۔۔۔ بہار کی دہلیز پہ خزاں کے خشک پتوں کا اُدھم، مجھے یوں لگا جیسے میرے سامنے ایک ٹھنڈے پانی کا جھڑنا ہے اور میں اس کے قریب پیاس سے مر رہا ہوں۔ میں سوچنے لگا۔

محبت اسقدر بے سکونی اور بے یقینی کیوں دیتی ہے۔ پھر بابا سے نظریں ملانے کی بجائے سورج کی زائل ہونے والی توانائیوں کی آسمان پر بے بسی کا نظارہ کرنے لگا جیسے کوئی اپنے زوال کے تھکے ہارے سفر کو مائل ہو۔
میں بابا سے اور بھی باتیں کرنا چاہتا تھالیکن عشق کے بارے میں اپنی ناسمجھی اور بے خبری کی وجہ سے ڈرتے ہوئے کوئی اور سوال نا کر سکا ۔ میرا دھیان عشق کے سبق سے ٹوٹا نا تھا ۔ کب سے بابا کو خاموشی سے ذکرِ الہٰی کرتے دیکھ رہا تھا۔ بابا نے بہت وقت بیت جانے کے بعد آنکھیں کھولیں اور بولے۔
’’ تو سمجھ رہا ہے کہ تیرا دھیان ٹوٹا نہیں ، تو سمجھ لے کہ تیرا دھیان کبھی عشق سے جڑا ہی نہیں۔ کچی مٹی پہ چھڑکاؤ کرو تو ہرجاہ بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی ہے۔ اس خوشبو کے لئے مٹی ہزاروں سال سے چلچلاتی دھوپ میں جلتی بلتی چلی آ رہی ہے۔ وہ اگر دھوپ میں نا جلتی تو پانی چھڑکا ؤ اس کے وجود میں مہک کے بھانبھڑ نا مچاتا۔ من کو عشق کی خوشبو دینے کے لیے تن کو دکھوں اور آزمائشوں کی دھوپ میں جلانا پڑتا ہے۔ تو دنیا کے مقام مرتبے کا دھنی ، تیرا گزر عاشق کے بے سروسامان راستے سے کہاں؟؟
دیکھ بچے ہر روح تلاش کے سفر میں ہے۔ حقیقت کے باطن میں چھپے اسرار کی تلاش ، محدود سے لا محدود کے رستے کی تلاش، منظر جو سامنے ہے بڑا دلکش ہے، دلفریب ہے لیکن منظر جو پوشیدہ ہے وہی اصل ہے۔ منظر سے دھیان ہٹا کر پسِ منظر کو کریدنا اتنا آسان نہیں جتنا تو سمجھتا ہے۔ ظاہر کے بدن کو چیر کر باطن میں اترنا اتنا سہل نہیں جتنا تیرے گمان میں ہے۔ ٕمحدود کت سکون کو چھوڑ کر لامحدود کے اضطراب میں قدم رکھنا اتنا آسان ہوتا تو سب جستجو کرنے والے بامراد ہو جاتے۔ محدود سے آگے دیکھنے کے لیے وہ نظر چاہیے جو عشق ہی دے سکتا ہے۔ عشق ہی وہ طاقت ہے جو ظاہر کو چیر کر باطن میں اتر جانے کو اسلوب سکھاتی ہے۔ ہاں واحد نام عشق کا قائم ۔۔ باقی ہر اک شے فانی۔‘‘

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے

کمال لکھا ہے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers