کہا جو تم نے
جہان بھر میں
مکیں کے اندر، مکاں کے اندر
زمین اور آسماں کے اندر
خدا کہیں بھی نہیں رہا ہے
بجا کہا ہے
یہاں جوظلم و ستم ہے جاری
کہ عشقِ گُل پر بھی سنگ باری
بھرے ہیں طوفان چشمِ نم میں
بہے ہے انسان سیلِ غم میں
زمانے بھر میں کہیں جو وہ دِکھ نہیں رہا ہے
بجا کہا ہے
مگر ذرا تم
ٹھہر تو جاؤ
کہ دو مجھے بھی تو یہ اجازت
عقیدتوں کو زبان دے لوں
حقیقتوں کا بیان دے لوں
یقیں کو بڑھ کر دوام دے لوں
خدا کا تم کو پیام دے لوں
کہ امن و انس و سلام دے لوں
اگر ہے تم کو تلاش اس کی
تو اپنے اندر نگاہ ڈالو
وجود اس کا جو ڈھونڈنا ہے
تو اپنے دل کو ٹٹول کر تم
چہار اکناف اپنے دیکھو
یہ خلق اس کی جو زندگی بھر
محبتوں اور نفرتوں کے ہے کھیل کھیلے
یہ لوحِ محفوظ میں اسی نے تو لکھ رکھا ہے
یہاں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو
محبتوں کا یقین توڑیں
کسی کو یونہی بلکتے روتے
کسی بھی انجانی رہ پہ چھوڑیں
مگر اسی ایک راہ پر ہی
وفاؤں کے کچھ امین بھی ہیں
جو خضرِ منزل بنے کشادہ دل و نگہ سے
رواں دواں ہیں پکارتے ہیں
جو راستے کے لُٹے مسافر کو
آسرا دے کے کہہ رہے ہیں
کہ ہم ہیں سیلِ وفا کی صورت
تو مہرباں ہیں خدا کی صورت
جو دل کے اندر ترے غموں کو
سمیٹ لیں گے خدا کی صورت
ازل سے لے کر ابد تلک جو
زمین اور آسماں کے اندر
محبتوں کی جو صورتیں ہیں
خدا بھی ان میں ہی دِکھ رہا ہے
خدا زمیں سے نہیں گیا ہے
خدا تمہارا بھی آسرا ہے
خدا ہمارا بھی آسرا ہے 

از : ناعمہ عزیز
ہم لوگوں میں سے اکثر اپنی ذات سے باہر نہیں آ پاتے، بس اپنے اندر کے چپے چپے سے ریت کے ڈھیروں کو چھان چھان کر دیکھتے ہیں کہ کوئی خزانہ مل جائے، اور وہ خزانہ خوشی کی شکل میں ملے یا دکھ کی شکل میں ! جب وہ مل جاتا ہے تو لے کر آرام سے کنارے پر بیٹھ جاتے ہیں، خوشی مل جائے تو قہقہوں کی گونج سے اندر بجھی بتیاں جل جاتی ہیں، اور دکھ مل جائیں تو آنسوؤں کا طوفان برپا ہو جاتا ہے، ہم چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ دراصل ایک انسانی دماغ اپنے اندر ایک پوری کائنات چھپا کر بیٹھا ہے، جیسے باہر کی کائنات میں طرح طرح کے راز چھپے ہیں جو کبھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو کبھی ہم پر عیاں ہو جاتے ہیں۔

موسموں کی بابت دیکھا تو معلوم ہوا باہر کے موسموں کی طرح اندر کے موسموں نے بھی اپنی ایک دنیا آباد کر رکھی ہے۔ جذبوں کی ہوا، احساسات کی بارش، بغاوتوں کے سمندر، دکھوں کی آندھیاں، صدموں کے طوفان، قہقوں کے ان گنت پھول، آنسوؤں کے بے شمار کانٹے حضرت انسان کے اندر یوں موجود ہیں کہ کسی ایک کا بھی نکالے جانا ممکن نہیں یہ سب موسم ہمیں باہر بھی یوں ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کو دیکھنا سطحی ہوتا ہے۔

جب آپ کسی کو سڑک کے دوسرے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں، آپ کا تاثر اس شخص کے متعلق مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی، کتابِ حیات کا مطالعہ تب تک ممکن ہی نہیں کہ جب تک آپ اگلا صفحہ نا پلٹ لیں، اور اگلے صفحے پر کیا کیا راز افشاں ہونگے اور ان کو پڑھ کر ہمیں کیا محسوس ہو گا اس کی پیشن گوئی کون کر سکتا ہے کسی ایک انسان سوانح حیات پر ہزاروں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ہر کتاب کے ہر صفحے کی ہر سطر میں ایک نیا راز پوشیدہ ہو سکتا ہے۔

سطر سطر زندگی کے حقیقتیں حضرت انسان کی اندر موجود ہیں اور بعض اوقات ان سے واقفیت انسان کو خود بھی نہیں ہو پاتی، کہنےکو ہم ہماری ذات کو جاننے والا واحد شخص ہی ہوتے ہیں لیکن مسئلہ ہی دراصل یہ ہے کہ ہم خود کو جانتے ہی نہیں ہیں، اور اسی تلاش میں عمر بیت جاتی ہے، ایک کہانی اختتام پذیر ہو جاتی ہے مگر در حقیقت وہ کہانی پھر بھی کسی نا کسی کی زبان سے بیان ہوتی ہی رہتی ہے وہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی، لوگ بچھڑ جاتے ہیں، لوگ مر جاتے ہیں لیکن وہ ان سے منسلک کہانیاں جو کبھی خوشی و تکلیف کا باعث ہوں ہمیں یاد رہتی ہیں۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers