" تمہیں بھی اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرنا ہو گی سیمی ،،،،، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اور کوئی صورت نہیں ہوتی !"


وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔


میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ،پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی ،،،،، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے ، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے ، محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے ، جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے ، کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے ۔
شکست و ریخت، بد بختی و سوختہ سامانی ۔

آج تک سوسائٹی جرائم کی بیخ کنی پر اپنی تمام قوت استعمال کرتی رہی ھے ، اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ کتنے گھروں میں کتنے مسلکوں میں سارا نقص ہی محبت سے پیدا ہوتا ھے ، سوسائٹی کا بنیادی تضاد ہی یہ ھے کہ ابھی تک وہ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ھے حالانکہ وہ اس کے ہاتھوں توفیق بھر تکلیف اٹھا چکی ھے ، جب تک یہ ن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہو جاتا اور اس کے ٹریفک رولز مقرر نہیں ہوتے ، تب تک شانتی ممکن نہیں کیونکہ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ھے کہیں ٹکتا نہیں اور معاشرے کو کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ھے ۔
وہ کہتا تھا۔
جب میری بیوی مجھ پہ الزام دھرتی اور وہ اکثر مجھ پہ الزام دھرتی تھی، اس وقت میرا جی چاہتا کہ اسے کہوں بی بی میرا قصور نہیں ہےعین اُس وقت قدرت اللہ شھاب میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیتا اور اور کہتا وہ جو کہتی ہے مان تو کہہ ہان جی ۔ جھگڑا نا کرو۔ مان لینے میں برا سُکھ ہے۔
میں بڑا عفیل آدمی ہوں اور میرا غصہ سُدھ بُدھ مار دینے والا ہے۔ا ِک جھکڑ چلتا ہے ٹہنی ٹہنی پتا پتا گزرتا ہے اور پھر وہی گرد۔
جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ اس جھکڑ کو گزر جانے دو اندر رُکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا۔ غصہ کھانے ی نہیں پینے کی چیز ہے۔
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے کوشش بار بار کو شش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ضد نا کرو اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔
جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا نا ہار جاؤ۔ ہار جاؤ ۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے۔
جب بھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اُسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ، شاید اللہ کو تمھاری یہی ادا پسند آ جائے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں کام آ سکتا ہے۔ کتنی آسان باتیں ہیں اگر ہم سمجھیں تو عمل کرنا بھی آسان ہوجائے گا:)
کچھ عرصہ پہلے میں نے اردو ویب کی لائبریری کے لیے ایک کتاب ’حسنِ خیال‘ کے چند صفحات کو یونی کوڈ میں لکھا تھا۔ ان میں سے مجھے جو پسند اور سمجھ آیا سوچا اُسے الگ سے یہاں پوسٹ کروں۔


’’حضرت بہلول رضی اللہ عنہ نے ایک درویش سے پوچھا کہ تمھاری زندگی کیسی گزرتی ہے؟
درویش نے کہا: تمام عالم میرے اشاروں پہ چل رہا ہے،
بہلول نے اس اجما ل کی تفصیل پوچھی ،
درویش نے جواب دیا: یہ سُن لو کہ تمام کام اُسی کے حکم سے ہوتے ہیں ۔
توخدا کی مرضی اور بندے کی خواہش ایک ہی چیز ہے۔ اس لئے میں وہ چاہتا ہوں جو ہو رہا ہے۔ اور جو ہوتا ہے یعنی میں نے اپنی خواہش کو رضائے الہٰی میں فنا کر دیا ہے۔ اس لئے زمین آسمان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے میری مرضی کے موافق ہو رہاہے۔
اس لئے میں وہ ہوں کہ ،
دریا اور سیلاب میری مرضی سے چلتے ہیں،
ستارے میرے کہنےکے مطابق گردش کرتے ہیں،
میری مرضی کے بغیر ایک پتا درخت سے نہیں گرتا،
میری مرضی کے بغیر کو ئی موت واقع نہیں ہوتی،
میری مرضی کے بغیر زمین سے آسمان تک ایک بھی اگ جنبش نہیں کرسکتی‘‘۔۔۔
میں پچھلے تین دن سے بخا ر میں مبتلا ہوں۔ ایسا بھی نہیں بخار مجھے مسلسل رہا ہے۔ کافی دنوں سے گلا خراب ہو رہا تھا اور تین دن پہلے رات کو ذرا کھانسی کا دورہ پڑا اور صبح بخار۔ دوپہر کو ٹھیک ہوگئی تھی رات کو پھر بخار ہوگیا، اگلے دن بالکل تھی یہ بھی نہیں تھا کہ بخار کے بعد کمزوری محسوس ہو رہی ہو۔ مگر اسی شام پھر بخار ہوگیا۔ اور کل پھر ٹھیک ہو گئی تھی بس یہ سوچا تھا کہ اب ذرا بیڈ ریسٹ کو لوں تاکہ مکمل طور پہ ٹھیک ہو جاؤں پھر بستر کی جان چھوڑ دو ں گی۔
آج رات پھر کھانسی کو دورہ پڑا تھا 2 بجے تھے تب اماں بھی اٹھی تھیں میں نے اماں کو کہا مجھے بھی پانی لا دیں ۔ انہوں نے پانی لا دیا اور میں کھانسی کا شربت پیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ کبھی نیند آجاتی کبھی آنکھ کھل جاتی۔ اسی اثناٰ میں وقت دیکھا تو 5:27 ہو گئے تھے۔ سوچا اماں کو جگا دوں ناشتہ بنا لیں یہی سوچتے پھر سے آنکھ لگ گئی۔ 6 بجے اماں نے لائٹ آن کی تو میں بھی جاگ گئی۔
یہ سب تو میں نے مختصراً حال بتا یا ہے آ پ کو۔ اب آگے چلیے مجھے جو یہ لگ رہا تھا میں ٹھیک ہو گئی ہوں، تو میں نے سوچا نیند تو آنہیں رہی کیوں نا ذرا اماں کے ساتھ جا کے ہا تھ بٹا لیا جائے ۔ ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہوگئی تھی آرام کرکر کے لچک ہی ختم ہو گئی تھی۔ میں اٹھنے لگی تو میری گردن میں بل پڑ گیا ۔ اور میں اٹھ کے بیٹھی تو مجھے لگا کہ میرے اندر بہت سی زہریلی گیسیں جمع ہو گئی ہیں سانس لینا مشکل ہو گیا ۔ اس سے پہلے کہ قے آجاتی میں آہستہ سے کھڑی ہوئی اور چپل پہنی۔ دروازہ کھولا اور میرے ذہن کی بتیاں بجھنے لگ گئیں۔ اس سے پہلے کی سب ہی بتیاں بجھ جاتیں میں 6 قدم کا فاصلہ طے کیا اور واقع اندھیرا چھا گیا اور بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہو ئے اور اپنے حواسوں کو بحال کرنے کی ناکام کوشش میں ، میں گر پڑی اور گرتے ہوئے آخری لفظ جو میرے منہ سے نکلا"امی"
امی کچن میں تھیں کہنے لگی کیا ہوا ؟
میں نے جواب نہیں دیا تو خود اٹھ کے آئیں مجھے گرا ہو ا دیکھ کے اٹھا یا ، کہنے لگی ایسے کیوں چلی آئی۔ خیر کوئی 1 منٹ کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو میں پانی کے نل کے قریب گئی۔ امی نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نےاشارے سے کہا قے آرہی ہے۔ اگلے ایک منٹ میں اسی کیفیت میں رہی کہ جیسے ابھی قے آجائے گی مگر میرے معدے میں پانی کے ایک بوند میں بھی ہلچل نہیں ہوئی۔
اس لئے کہ میں نے رات کو کچھ کھا یا ہی نہیں تھا۔
اگلے لمحے میرا سارا جسم پسینےسے ایسے شرابور تھا جیسے جون جولائی میں بجلی کے چلے جانے پہ ہوتا ہے اور اس سے اگلہ لمحہ اِس سے بھی حیران کن تھا میں کھڑ ی ہوئی تو ایسے ٹھنڈی پڑ گئی جیسے برف کی سِل میں لگا دیا ہو یہاں تک کے میرے کانوں سے سردی نکل رہی تھی۔ جو بھی تھا بہت عجیب تھا۔ میں نے کُلی کی اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی کمرے میں اور بستر پہ لیٹ گئی۔
اب اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوا جارہا۔ دھوپ میں بیٹھتی ہوں تو گرمی لگتی چھاؤں میں بیٹھتی ہوں تو سردی لگتی ہے۔ سر ابھی بھی بہت بھاری ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں ابھی میں نے اتوار والے دن ہی دوست کو کہا تھا یار بخار ہی نہیں ہوتا بندہ ذرا خدمت ہی کروا لیتا ہے۔ !!!!!!

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers