ہاں واقع تبدیلی کائنات کا خمیر ہے، بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم تبدیلی نہیں چاہتے، کچھ لمحے ، کچھ پل ایسے ہوتے ہیں کہ دل کرتا ہے گھڑی کی سوئیاں تھم جائیں، سمے رُک جائے، اور بس ہم اسی لمحے میں زندہ رہیں، ایسے ہی کسی وقت کے لئے شاعر کہتا ہے کہ
لمحوں میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
کچھ لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دل کرتا بس یہ وقت جلدی سے گزر جائے اور زندگی میں دوبارہ ایسا کبھی نا ہو، جی چاہتا ہے کہ ہمارے پاس جادو کی چھڑٰ ی ہو اور ہم اس منظر سے غائب ہو جائیں، زمین پھٹ جائے، آسمان ٹوٹ پڑے ، کچھ بھی پر یہ لمحہ گزر جائے۔
اسی طرح کچھ باتیں ایسی ہوتیں ہیں، کہ وہ انسانی دل و دماغ پر بہت بُری طرح سے ا ثر انداز ہوتیں، کہنے والا یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ اگر اس نے ایک عام بات کہی ہے اور عام سے اندازمیں کہی ہے تو اس کا اگلے بندے کے ذہن پر مثبت اثر کیوں ہوا اور نا ہی یہ جان سکتا ہے کہ اگر اس نے ایک خاص بات کہی ہے کو ئی تنبیہ کی ہے اور سمجھانے والے انداز میں کی تو اس کا اگلے بندے کے ذہن و دل پر منفی اثر کیوں ہوا ہے!!
اسی طرح کچھ کہانیاں ، کچھ تحریریں، کچھ منظر، کچھ واقعات بھی انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتے ہیں ، کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی ایک ہی لمحے میں کسی ایک منظر، کسی ایک واقعے، کسی ایک بات میں ایسی طاقت ہے کہ وہ کسی بھی اچھے انسان کو بُرائی کرنے پر مجبور کر دے ، کسی کو اچھائی کی طرف راغب کر دے، اور کسی کو ضد ، اور انا پر مائل کردے!!
لوگ بچھڑ جاتے ہیں، لوگ دنیا چھوڑ جاتے ہیں، لوگ حادثات کا شکا ر ہو جاتے ہیں ، مگر ان کے پیاروٕں کے دل میں وقت کے ساتھ ساتھ جانے والوں کی یادیں مدھم ہوتی رہتی ہیں، یہ سب تبدیلی کی بنیاد پر ہوتا ہے، وقتی صدمے اور تکلیفیں انسان کو اذیت ضرور دیتے ہیں مگر وقت ان ساری اذیتوں کو تھپک تھپک کر دل کے کسی کونے میں سُلا دیتا ہے اور ہم پھر سے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت شامل ہوتی ہے، اگر تبدیلی نا ہو تو اذیتوں ، تکلیفوں اور دکھوں کو انبار انسان کو اندر سے کھوکھلا کردے۔ اور کھوکھلے وجود کے ساتھ زندہ رہنا بھی ایک بہت بڑی اذیت ہے۔
ایسے ہی مقام پر شاعر کہتا ہے کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
گو سراپا کيف عشرت ہے شراب زندگي
اشک بھي رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگي
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگي
ہے 'الم' کا سورہ بھي جزو کتاب زندگي
ايک بھي پتي اگر کم ہو تو وہ گل ہي نہيں
جو خزاں ناديدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہي نہيں
آرزو کے خون سے رنگيں ہے دل کي داستاں
نغمہ انسانيت کامل نہيں غير از فغاں
ديدہ بينا ميں داغ غم چراغ سينہ ہے
روح کو سامان زينت آہ کا آئينہ ہے
حادثات غم سے ہے انساں کي فطرت کو کمال
غازہ ہے آئينہء دل کے ليے گرد ملال
غم جواني کو جگا ديتا ہے لطف خواب سے
ساز يہ بيدار ہوتا ہے اسي مضراب سے
طائر دل کے ليے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہيں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
جو سرود بربط ہستي سے ہم آغوش ہے
شام جس کي آشنائے نالہء 'يا رب' نہيں
جلوہ پيرا جس کي شب ميں اشک کے کوکب نہيں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عيش و عشرت ہي رہا
ہاتھ جس گلچيں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگي کا راز اس کي آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کيوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کي منزل تجھے
ہے ابد کے نسخہ ديرينہ کي تمہيد عشق
عقل انساني ہے فاني، زندہء جاويد عشق
عشق کے خورشيد سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگي ہے ، تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھي دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہيں
روح ميں غم بن کے رہتا ہے ، مگر جاتا نہيں
ہے بقائے عشق سے پيدا بقا محبوب کي
زندگاني ہے عدم ناآشنا محبوب کي
آتي ہے ندي جبين کوہ سے گاتي ہوئي
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتي ہوئي
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادي کي چٹانوں پر يہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھي ، اس کے گوہر پيارے پيارے بن گئے
يعني اس افتاد سے پاني کے تارے بن گئے
جوئے سيماب رواں پھٹ کر پريشاں ہو گئي
مضطرب بوندوں کي اک دنيا نماياں ہو گئي
ہجر، ان قطروں کو ليکن وصل کي تعليم ہے
دو قدم پر پھر وہي جو مثل تار سيم ہے
ايک اصليت ميں ہے نہر روان زندگي
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئي
پستي عالم ميں ملنے کو جدا ہوتے ہيں ہم
عارضي فرقت کو دائم جان کر روتے ہيں ہم
مرنے والے مرتے ہيں ليکن فنا ہوتے نہيں
يہ حقيقت ميں کبھي ہم سے جدا ہوتے نہيں
عقل جس دم دہر کي آفات ميں محصور ہو
يا جواني کي اندھيري رات ميں مستور ہو
دامن دل بن گيا ہو رزم گاہ خير و شر
راہ کي ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گيا ہو آرزو سے گوشہ گير
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمير
وادي ہستي ميں کوئي ہم سفر تک بھي نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھي نہ ہو
مرنے والوں کي جبيں روشن ہے اس ظلمات ميں
جس طرح تارے چمکتے ہيں اندھيري رات ميں
علامہ اقبال۔
اشک بھي رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگي
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگي
ہے 'الم' کا سورہ بھي جزو کتاب زندگي
ايک بھي پتي اگر کم ہو تو وہ گل ہي نہيں
جو خزاں ناديدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہي نہيں
آرزو کے خون سے رنگيں ہے دل کي داستاں
نغمہ انسانيت کامل نہيں غير از فغاں
ديدہ بينا ميں داغ غم چراغ سينہ ہے
روح کو سامان زينت آہ کا آئينہ ہے
حادثات غم سے ہے انساں کي فطرت کو کمال
غازہ ہے آئينہء دل کے ليے گرد ملال
غم جواني کو جگا ديتا ہے لطف خواب سے
ساز يہ بيدار ہوتا ہے اسي مضراب سے
طائر دل کے ليے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہيں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
جو سرود بربط ہستي سے ہم آغوش ہے
شام جس کي آشنائے نالہء 'يا رب' نہيں
جلوہ پيرا جس کي شب ميں اشک کے کوکب نہيں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عيش و عشرت ہي رہا
ہاتھ جس گلچيں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگي کا راز اس کي آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کيوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کي منزل تجھے
ہے ابد کے نسخہ ديرينہ کي تمہيد عشق
عقل انساني ہے فاني، زندہء جاويد عشق
عشق کے خورشيد سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگي ہے ، تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھي دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہيں
روح ميں غم بن کے رہتا ہے ، مگر جاتا نہيں
ہے بقائے عشق سے پيدا بقا محبوب کي
زندگاني ہے عدم ناآشنا محبوب کي
آتي ہے ندي جبين کوہ سے گاتي ہوئي
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتي ہوئي
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادي کي چٹانوں پر يہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھي ، اس کے گوہر پيارے پيارے بن گئے
يعني اس افتاد سے پاني کے تارے بن گئے
جوئے سيماب رواں پھٹ کر پريشاں ہو گئي
مضطرب بوندوں کي اک دنيا نماياں ہو گئي
ہجر، ان قطروں کو ليکن وصل کي تعليم ہے
دو قدم پر پھر وہي جو مثل تار سيم ہے
ايک اصليت ميں ہے نہر روان زندگي
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئي
پستي عالم ميں ملنے کو جدا ہوتے ہيں ہم
عارضي فرقت کو دائم جان کر روتے ہيں ہم
مرنے والے مرتے ہيں ليکن فنا ہوتے نہيں
يہ حقيقت ميں کبھي ہم سے جدا ہوتے نہيں
عقل جس دم دہر کي آفات ميں محصور ہو
يا جواني کي اندھيري رات ميں مستور ہو
دامن دل بن گيا ہو رزم گاہ خير و شر
راہ کي ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گيا ہو آرزو سے گوشہ گير
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمير
وادي ہستي ميں کوئي ہم سفر تک بھي نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھي نہ ہو
مرنے والوں کي جبيں روشن ہے اس ظلمات ميں
جس طرح تارے چمکتے ہيں اندھيري رات ميں
علامہ اقبال۔
جب منہاج القرآن والوں نے سپو کن انگلش کا کورس کرایا تو لیکچر دینے کے بعد سر اکرام صا حب نے ’ رد قادیانیت ‘ کورس کے بارے میں بتانا شروع کیا جس کا اشتہار ڈائیز پر لگا ہوا تھا ، انہوں نے ایک بتایا کہ ان کا ایک دوست تھا جو کہ پا نچویں کلا س سے ان کے ساتھ تھا اور میٹرک انہوں نے ساتھ ساتھ کیا ، ایک ساتھ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے ، گھومتے، پڑھتے، ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہو تے ، کرتے کرتے انہوں نے ایف ایس سی کر لی، سر اکرام کو پتا تھا کہ وہ قادیانی ہے، ایک دن ان کو کسی دوست نے رد قادیانیت کورس کے بارے میں بتایا اور اس کو کرنے کے بعد انہوں نے اپنے اس دوست سے جو کہ قادیانی تھا دوستی توڑنے کا فیصلہ کیا ، اور ہوتا یہ کہ جب بھی وہ ان کے گھر جاتا تو سر نے اپنے گھر والوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر وہ آئے تو اسے کہہ دیا جائے میں گھر پہ نہیں ہوں،ا یک دن اتفاق سے جب وہ آیا تو سر گلی میں ہی کھڑے تھے ، اس نے دیکھ لیا اور پو چھا تو سر نے اسے کہا کہ تم قادیانی ہو اس لئے میں تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، وہ اس بات پر خاصا پریشان ہو ا اور کہنے لگا کہ تم آؤ ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ، سر نے کہا کہ ابھی تو مجھے جانا ہے تم شام کو مجھے مسجد میں ملنا،
شام کو وہ مسجد گیا اور سر کو باہر بلوایا ، تو سر نے کہا کہ تم اند ر آجاؤ،
اس نے جواب دیا کہ ہمارا تمھاری مسجد میں آنا حرام ہے ، خیر سر باہر گئے ،
طے یہ ہوا کہ مذہبی دلائل پر بات ہو گی اور اگر وہ ہار گیا تو آئندہ وہ کبھی سر سے نہیں ملے گا،
اور ایسا ہی ہوا کہ وہ ہار گیا،
سر کے مطابق انہوں نے کئی بار اس کو اپنے گھر کے پاس منڈلاتے دیکھا اور جب سر کی والدہ خرابی طبیعت کی وجہ سے ہسپتال داخل تھیں تو بھی وہ ہسپتال گیا ، سر کی بہن کی شادی تھی اور وہ تب بھی میرج حال کے باہر دیکھا گیا مگر سرسے کبھی نہیں ملا۔۔
یہ تو سر کا نقطہ نظر تھا،
میرا نقطہ نظر ذرا ا س سے مختلف ہے، میں بہت زیادہ مذہب کو پرچار کرنے والی لڑکی نہیں ہوں اس لئے شاید کہ میں نے بھی مذہب کو اتنا ہی پڑھا جتنا وہ میرے کورس کی کتابو ں میں تھا، قرآن پاک پڑھا، کچھ مستند احادیث پڑھیں۔
مگر میں اس بات پر ہر گز اتفاق نہیں کرتی کہ اگر کوئی مسلما ن نہیں ہے تو اسے یہ حق ہی نا دیا جائے کہ وہ آپ سے بات بھی نہیں کر سکتا، مسلمان ، ہندو،سکھ، عیسائی ، یہودی ، کافر، یہ سب ہو نے پہلے انسان ہیں،
کیا انسانوں میں یہ چیز مشترک نہیں کہ وہ آدم کی اولاد ہیں ؟؟؟
کیا یہ چیز مشترک نہیں کہ انکو بھی اُس ذات نے پیدا کیا جس نے ہمیں پیدا کیا؟؟
میری پہچان یہ ہے کہ مجھے اللہ نے پیدا کیا، میں حضرت آدم کی اولاد ہو، میں حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے ہوں،پاکستا نی ہوں، آرائیوں کی برادری سے تعلق ہے ، میرے والد صاحب کا نا م میری شناخت کا سبب ہے ، میری سوچ، میرے اعمال، میری ذات کی شاخت کرتے ہیں۔
مگر اس سب سے قطع نظر ، اور ان سب کا ہونا صر ف اس لئے ہے کہ میں ایک انسا ن ہوں ،
یہ ٹھیک ہے کہ مجھے ان سب باتوں پر فخر ہو نا چاہئے ، مگر یہ سب مجھے کسی ایسے انسان سے بات کرنے کو نہیں روک سکتا جس کا تعلق کسی اور مذ ہب اور عقیدے سے ہو، نبی اکر م ﷺ اگر تبلیغ اسلا م سے قبل یہ سوچتے کہ میرا کافروں سے کوئی تعلق نہیں تو ہم آج مسلمان کیسے ہو تے!!!
اور اللہ تعالیٰ پھر صرف مسلمانوں کو ہی کھانے کو کیوں نہیں دیتا؟؟ ساری دنیا کو کیوں دیتا؟؟؟ چاہے وہ کافر ہیں یا مسلمان!!! جو اللہ کونہیں مانتے وہ انکو بھی دیتا ہے پھر ہمیں یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ ہم صر ف ایک انسان کو اس لئے نظر انداز کریں کہ وہ ہمارے مذہب کا نہیں ہے!
حیرت ہے پاکستان امریکہ سے امداد لے کر کھا تا ہے ، کوئی اس پر فتوی کیوں نہیں دیتا کہ کیوں کافروں سے امداد لیتے ہو!
ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ میری اس بات سے اتفا ق نا کریں ، اور یہ ضروری بھی نہیں، یہ صرف میرا نقطہ نظر ہےمجھے ہر وہ انسان اچھا لگتا ہے جسے ساری دنیا بُرا سمجھتی ہے، اور میں ہر اس انسان کو معاف کر دیتی ہوں جو میری ذات کو نشانہ بناتا ہے، وقتی غصہ اپنی جگہ مگر میری عادت ہی ایسی ہے کہ میں ان لوگوں سے خود جا کر مل لیتی ہوں ، اپنے دل میں کوئی بات نہیں رکھتی ، ابھی کچھ دن پہلے ہی میری چند دوستوں نے مجھے کہا کہ تم میں سیلف رسپیکٹ نہیں ہے۔ ایسا ہی ہو گا ۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کسی نے میرے ساتھ غلط کیا تو یہ اس کا عمل ہے، اور اگر کوئی غلط ہے تو یہ بھی اس کا مسئلہ ہے، لیکن اگر میں اپنی نام نہاد انا، غیرت مندی اور سیلف رسپیکٹ کو لے کے بیٹھی رہوں گی تو مجھ میں اور ا س میں کوئی فرق نہیں رہے گا ایسی نام نہاد مسلمان بننے سے کہ میری ذات سے کسی کو دل ٹوٹے میں انسان بھلی ہوں ۔ اور اسی میں ہی خوش ہوں۔۔
شام کو وہ مسجد گیا اور سر کو باہر بلوایا ، تو سر نے کہا کہ تم اند ر آجاؤ،
اس نے جواب دیا کہ ہمارا تمھاری مسجد میں آنا حرام ہے ، خیر سر باہر گئے ،
طے یہ ہوا کہ مذہبی دلائل پر بات ہو گی اور اگر وہ ہار گیا تو آئندہ وہ کبھی سر سے نہیں ملے گا،
اور ایسا ہی ہوا کہ وہ ہار گیا،
سر کے مطابق انہوں نے کئی بار اس کو اپنے گھر کے پاس منڈلاتے دیکھا اور جب سر کی والدہ خرابی طبیعت کی وجہ سے ہسپتال داخل تھیں تو بھی وہ ہسپتال گیا ، سر کی بہن کی شادی تھی اور وہ تب بھی میرج حال کے باہر دیکھا گیا مگر سرسے کبھی نہیں ملا۔۔
یہ تو سر کا نقطہ نظر تھا،
میرا نقطہ نظر ذرا ا س سے مختلف ہے، میں بہت زیادہ مذہب کو پرچار کرنے والی لڑکی نہیں ہوں اس لئے شاید کہ میں نے بھی مذہب کو اتنا ہی پڑھا جتنا وہ میرے کورس کی کتابو ں میں تھا، قرآن پاک پڑھا، کچھ مستند احادیث پڑھیں۔
مگر میں اس بات پر ہر گز اتفاق نہیں کرتی کہ اگر کوئی مسلما ن نہیں ہے تو اسے یہ حق ہی نا دیا جائے کہ وہ آپ سے بات بھی نہیں کر سکتا، مسلمان ، ہندو،سکھ، عیسائی ، یہودی ، کافر، یہ سب ہو نے پہلے انسان ہیں،
کیا انسانوں میں یہ چیز مشترک نہیں کہ وہ آدم کی اولاد ہیں ؟؟؟
کیا یہ چیز مشترک نہیں کہ انکو بھی اُس ذات نے پیدا کیا جس نے ہمیں پیدا کیا؟؟
میری پہچان یہ ہے کہ مجھے اللہ نے پیدا کیا، میں حضرت آدم کی اولاد ہو، میں حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے ہوں،پاکستا نی ہوں، آرائیوں کی برادری سے تعلق ہے ، میرے والد صاحب کا نا م میری شناخت کا سبب ہے ، میری سوچ، میرے اعمال، میری ذات کی شاخت کرتے ہیں۔
مگر اس سب سے قطع نظر ، اور ان سب کا ہونا صر ف اس لئے ہے کہ میں ایک انسا ن ہوں ،
یہ ٹھیک ہے کہ مجھے ان سب باتوں پر فخر ہو نا چاہئے ، مگر یہ سب مجھے کسی ایسے انسان سے بات کرنے کو نہیں روک سکتا جس کا تعلق کسی اور مذ ہب اور عقیدے سے ہو، نبی اکر م ﷺ اگر تبلیغ اسلا م سے قبل یہ سوچتے کہ میرا کافروں سے کوئی تعلق نہیں تو ہم آج مسلمان کیسے ہو تے!!!
اور اللہ تعالیٰ پھر صرف مسلمانوں کو ہی کھانے کو کیوں نہیں دیتا؟؟ ساری دنیا کو کیوں دیتا؟؟؟ چاہے وہ کافر ہیں یا مسلمان!!! جو اللہ کونہیں مانتے وہ انکو بھی دیتا ہے پھر ہمیں یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ ہم صر ف ایک انسان کو اس لئے نظر انداز کریں کہ وہ ہمارے مذہب کا نہیں ہے!
حیرت ہے پاکستان امریکہ سے امداد لے کر کھا تا ہے ، کوئی اس پر فتوی کیوں نہیں دیتا کہ کیوں کافروں سے امداد لیتے ہو!
ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ میری اس بات سے اتفا ق نا کریں ، اور یہ ضروری بھی نہیں، یہ صرف میرا نقطہ نظر ہےمجھے ہر وہ انسان اچھا لگتا ہے جسے ساری دنیا بُرا سمجھتی ہے، اور میں ہر اس انسان کو معاف کر دیتی ہوں جو میری ذات کو نشانہ بناتا ہے، وقتی غصہ اپنی جگہ مگر میری عادت ہی ایسی ہے کہ میں ان لوگوں سے خود جا کر مل لیتی ہوں ، اپنے دل میں کوئی بات نہیں رکھتی ، ابھی کچھ دن پہلے ہی میری چند دوستوں نے مجھے کہا کہ تم میں سیلف رسپیکٹ نہیں ہے۔ ایسا ہی ہو گا ۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کسی نے میرے ساتھ غلط کیا تو یہ اس کا عمل ہے، اور اگر کوئی غلط ہے تو یہ بھی اس کا مسئلہ ہے، لیکن اگر میں اپنی نام نہاد انا، غیرت مندی اور سیلف رسپیکٹ کو لے کے بیٹھی رہوں گی تو مجھ میں اور ا س میں کوئی فرق نہیں رہے گا ایسی نام نہاد مسلمان بننے سے کہ میری ذات سے کسی کو دل ٹوٹے میں انسان بھلی ہوں ۔ اور اسی میں ہی خوش ہوں۔۔
انسان کبھی کسی کے سامنے مکمل نہیں ہوتا، کتنے لوگ ہوتے ہیں ہماری زندگی میں ! !!
دوست احباب، والدین ، بہن ، بھائی، رشتے ناطے، خون کے احساس و جذبات کے رشتے مگر ہر انسان کے سامنے ایک الگ روپ! ایک اور چہرہ، ایک اور رویہ ، ایک اور احساس، غرض سب کچھ سب کے سامنے الگ ہوتا ہے!
بہت سے لوگوں کو ہمارے ذات سے الگ الگ رویے ملتے ہیں، کسی کو محبت ملتی ہے کسی کو نفرت، کسی کو فائدہ ملتاہے کسی کو نقصان، کسی کو کامبابی ملتی ہے کسی کو ناکامی، کسی کو علم ملتا ہے ، غرض ہر انسان کی ہم سے اپنی ایک الگ ہی غرض ہوتی ہے۔
ہاں ایک احساس ایسا بھی ہے جو ہر بار ہم پر طاری ہوتا ہے ہم کچھ غلط کریں یا ٹھیک، کوئی ہمارے ساتھ غلط کرے یا نا کرے مگر ہمارے دل میں یہ خیال تو ضرور آتا ہے کہ "خدا تو دیکھتا ہے"
ہاں خدا دیکھتا ہے ! وہ سب کچھ دیکھتا ہے، وہ ہماری نیتوں سے واقف ہے ہمارے عملوں سے واقف ہے! ہمارے ہر حرکت کی خبر ہے اسے!
جائے نماز بچھا کر میرے ذہن میں پہلا خیال آتا ہے کہ میں اس ہستی کے سامنے کھڑی ہوں جس نے مجھے تخلیق کیا! جس نے مجھے زندگی کی ہر آسا ئش دی، جس نے مجھے اتنی قوت دی کہ میں آج اپنے پیروں پہ کھڑی ہوں ، اور جو اتنا بلند ہے کہ خیالات اس کو نہیں چھو سکتے، اتنا ظاہر ہے کہ حجابات اس کو نہیں چھپا سکتے، وہ کہ جس کے سامنے میں ایک کھلی کتاب کی مانند ہوں، جو میرے اچھے اور برے اعمال سے واقف ہے اور جو مجھ پہ یہ حق بھی رکھتا ہے کہ مجھ سے یہ سب کچھ چھین لے ، وہ جو چاہے تو بادشاہوں کو فقیر کر دے ، چاہے تو فقیروں کو بادشاہ بنا دے!
ہاں وہ سب جانتا ہے! میں اس کی خوبیوں کو لفظوں میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہوں!
یا انسان خود اپنا وہ دوست ہوتا ہے جو اپنی زندگی کی ہر کتا ب کے گوشے گوشے سے واقف ہوتا ہے!
ہاں انسان جانتا ہے کہ وہ کتنا بُرا ہے اور میرے خیال میں کسی کا اپنے لئے اتنا جاننا ہی کافی ہے وہ کتنا بُرا ہے ، لوگوں کے لئے ہم کتنے بھی اچھے ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! ہمیں اگر پتا ہو کہ ہم کتنے بُرے ہیں تو ہی ہم اپنے آپ کو اچھا کر سکتے ہیں!
مگر ان سب سے الگ فن کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے، چھپاتے نہیں مگر صرف اس صورت میں کہ جب ہمیں اپنے فن سے لگاؤ ہو محبت ہو!!
فن تو کوئی بھی ہوتاہے!کوئی گانا گاتا ہے ، تو مصوری کرتا ہے ، کوئی شاعر ہے، کوئی ڈرامہ نگار ہے، کوئی مصور ہے، کوئی مصنف ہے، ہر انسان اپنے جذبات کو اظہاراپنے فن کے ذریعے سے کرتا ہے، کچھ نا ہونے سے فنکار ہونا اچھا ہوتا ہے، انسان کو کسی نا کسی طرح اپنی ذات کے اظہار کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔۔۔
دوست احباب، والدین ، بہن ، بھائی، رشتے ناطے، خون کے احساس و جذبات کے رشتے مگر ہر انسان کے سامنے ایک الگ روپ! ایک اور چہرہ، ایک اور رویہ ، ایک اور احساس، غرض سب کچھ سب کے سامنے الگ ہوتا ہے!
بہت سے لوگوں کو ہمارے ذات سے الگ الگ رویے ملتے ہیں، کسی کو محبت ملتی ہے کسی کو نفرت، کسی کو فائدہ ملتاہے کسی کو نقصان، کسی کو کامبابی ملتی ہے کسی کو ناکامی، کسی کو علم ملتا ہے ، غرض ہر انسان کی ہم سے اپنی ایک الگ ہی غرض ہوتی ہے۔
ہاں ایک احساس ایسا بھی ہے جو ہر بار ہم پر طاری ہوتا ہے ہم کچھ غلط کریں یا ٹھیک، کوئی ہمارے ساتھ غلط کرے یا نا کرے مگر ہمارے دل میں یہ خیال تو ضرور آتا ہے کہ "خدا تو دیکھتا ہے"
ہاں خدا دیکھتا ہے ! وہ سب کچھ دیکھتا ہے، وہ ہماری نیتوں سے واقف ہے ہمارے عملوں سے واقف ہے! ہمارے ہر حرکت کی خبر ہے اسے!
جائے نماز بچھا کر میرے ذہن میں پہلا خیال آتا ہے کہ میں اس ہستی کے سامنے کھڑی ہوں جس نے مجھے تخلیق کیا! جس نے مجھے زندگی کی ہر آسا ئش دی، جس نے مجھے اتنی قوت دی کہ میں آج اپنے پیروں پہ کھڑی ہوں ، اور جو اتنا بلند ہے کہ خیالات اس کو نہیں چھو سکتے، اتنا ظاہر ہے کہ حجابات اس کو نہیں چھپا سکتے، وہ کہ جس کے سامنے میں ایک کھلی کتاب کی مانند ہوں، جو میرے اچھے اور برے اعمال سے واقف ہے اور جو مجھ پہ یہ حق بھی رکھتا ہے کہ مجھ سے یہ سب کچھ چھین لے ، وہ جو چاہے تو بادشاہوں کو فقیر کر دے ، چاہے تو فقیروں کو بادشاہ بنا دے!
ہاں وہ سب جانتا ہے! میں اس کی خوبیوں کو لفظوں میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہوں!
یا انسان خود اپنا وہ دوست ہوتا ہے جو اپنی زندگی کی ہر کتا ب کے گوشے گوشے سے واقف ہوتا ہے!
ہاں انسان جانتا ہے کہ وہ کتنا بُرا ہے اور میرے خیال میں کسی کا اپنے لئے اتنا جاننا ہی کافی ہے وہ کتنا بُرا ہے ، لوگوں کے لئے ہم کتنے بھی اچھے ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! ہمیں اگر پتا ہو کہ ہم کتنے بُرے ہیں تو ہی ہم اپنے آپ کو اچھا کر سکتے ہیں!
مگر ان سب سے الگ فن کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے، چھپاتے نہیں مگر صرف اس صورت میں کہ جب ہمیں اپنے فن سے لگاؤ ہو محبت ہو!!
فن تو کوئی بھی ہوتاہے!کوئی گانا گاتا ہے ، تو مصوری کرتا ہے ، کوئی شاعر ہے، کوئی ڈرامہ نگار ہے، کوئی مصور ہے، کوئی مصنف ہے، ہر انسان اپنے جذبات کو اظہاراپنے فن کے ذریعے سے کرتا ہے، کچھ نا ہونے سے فنکار ہونا اچھا ہوتا ہے، انسان کو کسی نا کسی طرح اپنی ذات کے اظہار کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔۔۔
پاگل پن ایک بیماری ہے اور مجھے نہیں پتا پاگل انسان کس طرح کا ہوتا ہے!!
میں اپنی طرز کی ایک عجیب سی پاگل ہوں ، فرسٹر یشن بھی ایک بیماری ہے ،
اور مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ یہ پاگل پن کی ایک قسم ہے کیونکہ جب میں
فرسٹریشن کا شکار ہوتی ہوں تو میری کیفیت بالکل پاگلوں جیسی ہوتی ہے، انسان
کو اپنی فرسٹریشن باہر نکالنے کے لئے بھی ایک زندہ انسان کی ضرورت پڑتی
ہے، جس پر وہ جی بھر کی اند ر کا کوڑا کڑکٹ نکال لے، پر ضروری نہیں ہے کہ
وہ بندہ ہمیں سمجھتا بھی ہو!!
اور ایسی حالت میں جب انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو اور مایوسی جیسے مرض میں مبتلا ہو تو پھر اللہ ہی وارث ہے!!
باتوں کی حد تک ہم بہت آگے آگے ہوتے ہیں پر عمل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، اشفاق احمد بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہو ں ۔
میرے پاس تو علم نہیں ہے عمل بھی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے اگر دنیا میں کوئی بندہ ناکام ہے تو مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے،
صوفی لوگ گلہ نہیں کیا کرتے تھے شکوہ نہیں کرتے، ساری دنیا ان کے اشاروں پر ناچتی ہے ، اس لئے کہ دنیا میں جو ہو تا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہو تاہے اور صوفی لوگ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں!!
جب میں فرسٹریشن کا شکا ر ہوتی ہو ں تو میں بھی یہ سوچتی ہو ں کہ جو ہو رہا ہے اللہ کے حکم سے ہے پر پھر بھی انسان ہوں قدم ڈگمگا ہی جاتے ہیں۔ یہ جان کر بھی سب کچھ اسی کے حکم سے ہے میں عام فہم لوگوں کی طرح گلہ بھی کرتی ہوں اور شکوہ بھی۔۔۔
عجیب بے بسی ہے کہ میں سچ لکھنا بھی چاہتی ہوں کہنا بھی چاہتی ہوں اور کہہ بھی نہیں سکتی!!
میں اپنی فرسٹریشن کو باہر نکالنا بھی چاہتی اور نکال بھی نہیں پاتی، کوئی حل نہیں ہے بیکا ر ہے سب !
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی مرضی سے بھیجا اپنی مرضی سے اٹھائیں گے، اور دنیامیں رکھ کر بھی کہتے ہیں کہ اگر میری مرضی پہ نا چلو گے تو نامراد ہو ناکام ہو!!
کیسا اصول ہے!
کیسی کشمکش ہے!
جب ہم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے تو پھر فرسٹریشن کا شکار کیوں ہوں!
ایک طرف اس بات پر یقین ہے کہ جو ہوتا ہے بہتری کے لئے ہو تا ہے اور ایک طرف مایوسی کے دورے!!
میں کہتی ہوں کہ اگر آپ سے کچھ چھن جاتا ہے تو اسی کے بدلے میں کچھ نا کچھ مل بھی جاتا ہے!
پر مسئلہ یہ ہے کہ یقین کی کمی ہے ، اور کیوں یہ بھی نہیں معلوم !
کہتے ہیں بندے کے پاس یقین ہو تو وہ ساری دنیا فتح کر سکتا ہے! ہم سے اپنا آپ فتح نہیں ہوتا دنیا خاک فتح کریں گے!!!!!!!
اتنا کچھ لکھ کر بھی فرسٹریشن سے جان نہیں چھوٹی!!!
















اور ایسی حالت میں جب انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو اور مایوسی جیسے مرض میں مبتلا ہو تو پھر اللہ ہی وارث ہے!!
باتوں کی حد تک ہم بہت آگے آگے ہوتے ہیں پر عمل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، اشفاق احمد بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہو ں ۔
میرے پاس تو علم نہیں ہے عمل بھی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے اگر دنیا میں کوئی بندہ ناکام ہے تو مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے،
صوفی لوگ گلہ نہیں کیا کرتے تھے شکوہ نہیں کرتے، ساری دنیا ان کے اشاروں پر ناچتی ہے ، اس لئے کہ دنیا میں جو ہو تا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہو تاہے اور صوفی لوگ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں!!
جب میں فرسٹریشن کا شکا ر ہوتی ہو ں تو میں بھی یہ سوچتی ہو ں کہ جو ہو رہا ہے اللہ کے حکم سے ہے پر پھر بھی انسان ہوں قدم ڈگمگا ہی جاتے ہیں۔ یہ جان کر بھی سب کچھ اسی کے حکم سے ہے میں عام فہم لوگوں کی طرح گلہ بھی کرتی ہوں اور شکوہ بھی۔۔۔
عجیب بے بسی ہے کہ میں سچ لکھنا بھی چاہتی ہوں کہنا بھی چاہتی ہوں اور کہہ بھی نہیں سکتی!!
میں اپنی فرسٹریشن کو باہر نکالنا بھی چاہتی اور نکال بھی نہیں پاتی، کوئی حل نہیں ہے بیکا ر ہے سب !
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی مرضی سے بھیجا اپنی مرضی سے اٹھائیں گے، اور دنیامیں رکھ کر بھی کہتے ہیں کہ اگر میری مرضی پہ نا چلو گے تو نامراد ہو ناکام ہو!!
کیسا اصول ہے!
کیسی کشمکش ہے!
جب ہم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے تو پھر فرسٹریشن کا شکار کیوں ہوں!
ایک طرف اس بات پر یقین ہے کہ جو ہوتا ہے بہتری کے لئے ہو تا ہے اور ایک طرف مایوسی کے دورے!!
میں کہتی ہوں کہ اگر آپ سے کچھ چھن جاتا ہے تو اسی کے بدلے میں کچھ نا کچھ مل بھی جاتا ہے!
پر مسئلہ یہ ہے کہ یقین کی کمی ہے ، اور کیوں یہ بھی نہیں معلوم !
کہتے ہیں بندے کے پاس یقین ہو تو وہ ساری دنیا فتح کر سکتا ہے! ہم سے اپنا آپ فتح نہیں ہوتا دنیا خاک فتح کریں گے!!!!!!!
اتنا کچھ لکھ کر بھی فرسٹریشن سے جان نہیں چھوٹی!!!
مایوسی کفر ہے۔ ہم انسان امید کے سہارے زندہ ہیں اور یہ دنیا امید کے سہارے قائم ہے:)،
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں پا کستان کی، میں آج چودہ اگست 2011 کو پاکستان کے خالات حاضرہ پر روشنی نہیں ڈالوں گی، مین پاکستان کے حکمرانوں کو بُرا بھلا بھی نہیں کہوں گی ، میں یہ بھی نہیں کہوں گی کہ قتل و غارت اور دہشت گردی کا بازات گرم ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں لٹرے پاکستان کو لوٹتے جارہے ہیں۔۔۔۔
آج 14 اگست 2011 کو میں صرف اتنا ہی کہوں گی کہ اگر ہم چاہتے ہیں پاکستان، پاکستان بن جائے تو اپنی شخصی آزادی سے آزاد ہو کر ایک شہری کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنا چاہئے،
نوجوانوں کو پاکستان کے مستقبل سے خوفزدہ نہیں ہو نا چاہئے کیونکہ اگر ہم چاہیں کو ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں اور پاکستان کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں تو صرف حالات بدلنےہیں۔۔۔
کہتے ہیں چیزون کی قدر دو وقت میں ہوتی ہے
ایک تب جب وہ ہماری پہنچ میں نا ہوں اور ایک تب جب وہ ہماری پہنچ میں آکر نکل جائیں۔۔
جی پاکستان کی قدر ان لوگوں کو تھی جن کے پاس یہ نہیں تھا اور ہمیں اس دن ہو گی جب ہمارے پاس نہیں ہو گا اور اللہ نا کرے ایسا کوئی وقت آئے اس لئے
LOVE YOU FREEDOM AND LOVE PAKISTAN
HAPPY INDEPENDENCE DAY TO ALL PAKISTANIS ۔۔۔۔۔۔
.
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں پا کستان کی، میں آج چودہ اگست 2011 کو پاکستان کے خالات حاضرہ پر روشنی نہیں ڈالوں گی، مین پاکستان کے حکمرانوں کو بُرا بھلا بھی نہیں کہوں گی ، میں یہ بھی نہیں کہوں گی کہ قتل و غارت اور دہشت گردی کا بازات گرم ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں لٹرے پاکستان کو لوٹتے جارہے ہیں۔۔۔۔
آج 14 اگست 2011 کو میں صرف اتنا ہی کہوں گی کہ اگر ہم چاہتے ہیں پاکستان، پاکستان بن جائے تو اپنی شخصی آزادی سے آزاد ہو کر ایک شہری کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنا چاہئے،
نوجوانوں کو پاکستان کے مستقبل سے خوفزدہ نہیں ہو نا چاہئے کیونکہ اگر ہم چاہیں کو ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں اور پاکستان کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں تو صرف حالات بدلنےہیں۔۔۔
کہتے ہیں چیزون کی قدر دو وقت میں ہوتی ہے
ایک تب جب وہ ہماری پہنچ میں نا ہوں اور ایک تب جب وہ ہماری پہنچ میں آکر نکل جائیں۔۔
جی پاکستان کی قدر ان لوگوں کو تھی جن کے پاس یہ نہیں تھا اور ہمیں اس دن ہو گی جب ہمارے پاس نہیں ہو گا اور اللہ نا کرے ایسا کوئی وقت آئے اس لئے
LOVE YOU FREEDOM AND LOVE PAKISTAN
HAPPY INDEPENDENCE DAY TO ALL PAKISTANIS ۔۔۔۔۔۔
.
کہتے ہیں جب ایک سانس آ کر گزر جاتا ہے تو گویا موت کی طرف ایک قدم بڑھ جاتا ہے اور یہاں تو آوے کا آوا ہی گزر گیا ، مطلب پورا ایک سال!! جی ہاں عرف عام میں ہم بائیس سال کے ہو گئے ہیں!! چھوٹے بھیا کے مطابق عقل ابھی گھٹنوں میں ہی ہے، اور میرا اپنا خیال یہ ہے کہ شاید گھٹنوں سے بھی نیچے رہ گئی ورنہ بائیس سالوں میں کچھ نا کچھ تو ترقی مل ہی گئی ہوتی!!
اور بڑے بھیا کے مطابق دماغ میں مغز کے نام پر بھی بھوسا بھرا ہوا ہے اب بھلا ان کو کون سمجھائے کہ میں نے سفارش نہیں کی اللہ سائیں سے کہ دنیا جہان کا بھوسا ہما رے ہی دماغ میں بھر دیں، وہ تو بھلا ہو اللہ سائیں کا کہ بھوسا ہی بھر ڈالا اگر خالی ہی رہنے دیتے تو پھر نجانے ہمیں کیا کیا طعنے اور کوسنے سننے کو ملتے۔
اور میری اماں جان کو خیا ل ہے کہ
’’کام کی نا کاج کی دشمن اناج کی‘‘
کہ ہاں عرف عام میں میری اماں کی باتوں کا یہی مطلب نکلتا ہے پر قسم ہے اس بھوسے کی کہ جو میرے دماغ میں بھرا ہے اور اس عقل کی کہ گھٹنوں سے نیچے ہی رہ گئی کبھی بھی میری إماں نے یہ مختصر سا جملہ بولنے پر اکتفا نہیں کیا ہمیشہ وضاحت دیتیں ہیں
چھوٹی بہن کہتی ہے کہ تم لٹریچر پڑھ کر کیا کرو گی زیادہ سے زیادہ ٹیچر ہی لگ جاؤ گی نا ، آئی ٹی طرف ہی دھیان دو اپنا، دو چار پیسے کما لو گی، یعنی کہ وہی ، جی ہاں آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے ، ہاں نا تو کوئی بات نہیں ہم تو پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں کہ ہمیں بنا عقل کے ہی دنیا میں بھیجا گیا تھا,
جب کہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس بار سی ایس ایس کا امتحا ن پاس کر کے دنیا کو حیران کر دیں ہاہاہاہاہاہاہا، آخر کو خوابوں میں چھچھرے دیکھنے کا ہمارا بھی من کر تا ہے
اور چھوٹے تو مجھ پہ باقاعدہ رعب ڈالتے ہیں ، ایک دن ہم کمپیوٹر پر ہی بیٹھے نیٹ گردی میں مصروف تھے کہ خالہ کی بیٹی جو کہ پانچویں کلاس کی طالبعلم ہےا ور بیٹا جو کہ چہارم میں پڑھتا ہے نے آ کر ہمیں بڑے رعب سے مخاطب کیا ،
کیا ناعمہ آپی اب اٹھ بھی جاؤ نا ہم نے کارٹون دیکھنے ہیں۔ ہم حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ، اور بڑی مسکین سے صورت بنائے ان سے سوال کی جسارت کی،
کہ جب عائشہ(چھوٹی بہن) بیٹھی ہوتی ہے تو اسے تو نہیں کہتے اٹھ جاؤ،
تو انہوں سے بڑی شان سے جواب دیا عائشہ باجی سے ڈر لگتا ہے آپ سے نہیں لگتا ،
اور اس دن سے ہم اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ چھوٹوں پر بھی اپنی دھاک نہیں بیٹھا سکے
پورے گھر بھر میں ایک ہی ہماری لاڈلی ہے، صالحہ، جی ہاں بچپن سے اب تک اماں کے بعد اسکا وقت ہمارے ساتھ ہی گزرتا ہے ، ہمارے لاڈ پیار نے اسے بھی اتنا بگاڑ دیا ہے کہ بس ،ا ب تو اماں سے او ر عائشہ سے اس لئے بھی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کہ تم نے بگاڑا ہے، اب بھگتو ، مگر اتنا بگاڑنے کے باوجود بھی ہمارے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی،
اور اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پچھلے چھ دن سے وہ اور اس سے بڑی بہن خالہ کہ ہاں گئے ہیں چھٹیاں گزارنے کے واسطے اور ہم تھے کہ تیسرے ہی دن اداس ہو گئے ، پر کیا کرتے مجبوری تھی اپنی اداسی کو الفاظ کی زبان نا دے پائے، کل شام ابا جی موبائل لے کے خالو کو فون کیا کہ ذرا دیر کو اپنی لاڈلی بہن کی آواز ہی سن لیں تو انہوں نے کہ خالہ کے نمبر پہ فون کر لو میں ذرا مصروف ہوں ، اور ابا جی تو پہلے ہی دھمکی لگا چکے تھے کہ خبردار بیلنس ضائع نا کرنا آج ہی کروایا ہے بس پھر کیا تھا ڈرتے مارے ہمت ہی نا ہوئی کہ پھر سے فون کر لیتے ہیں۔
اور آج چونکہ میری سالگرہ کا دن تھا صبح ہی صبح خالہ کو فون آیا کہ صالحہ کو بخار ہو گیا ہے اور ہم نے فورا ہی اپنا بیان دینا مناسب سمجھا کہ دیکھا وہاں جا کر میرے بغیر ادا س ہو گئی،،، اماں صبح سے لینے گئی ہیں اور ہم انتظار کر رہےہیں کہ اب بھی آئی اب بھی آئی ، اور اسی انتطا ر میں دوپہر بھر ہمیں نیند بھی نہیں آئی۔۔ خیر اب وہ آگئی تو ہمیں سکون ہوا ہے،،
اور ہماری دوستوں کے خیا ل ہمارے بارے میں کچھ ایسے ہیں کہ ہم ان کے لئے انٹر ٹینمنٹ کا اچھا ذریعہ ہیں، البتہ انٹر نیٹ پر ہماری بونگیاں دیکھ کر انکو کبھی یقین نہیں آیا کہ میں بظاہر ہنس مکھ سی کڑی زندگی میں کبھی کسی لمحے میں سنجیدہ بھی ہو سکتی ہوں
یہ تو تھی ہماری کچھ نااہلی ، اور لاڈ پیار کی داستان ، اور ایسا کردار نبھاتے نبھاتے آج پورے بائیس سال ہو گئے ہیں
اور بڑے بھیا کے مطابق دماغ میں مغز کے نام پر بھی بھوسا بھرا ہوا ہے اب بھلا ان کو کون سمجھائے کہ میں نے سفارش نہیں کی اللہ سائیں سے کہ دنیا جہان کا بھوسا ہما رے ہی دماغ میں بھر دیں، وہ تو بھلا ہو اللہ سائیں کا کہ بھوسا ہی بھر ڈالا اگر خالی ہی رہنے دیتے تو پھر نجانے ہمیں کیا کیا طعنے اور کوسنے سننے کو ملتے۔
اور میری اماں جان کو خیا ل ہے کہ
’’کام کی نا کاج کی دشمن اناج کی‘‘
کہ ہاں عرف عام میں میری اماں کی باتوں کا یہی مطلب نکلتا ہے پر قسم ہے اس بھوسے کی کہ جو میرے دماغ میں بھرا ہے اور اس عقل کی کہ گھٹنوں سے نیچے ہی رہ گئی کبھی بھی میری إماں نے یہ مختصر سا جملہ بولنے پر اکتفا نہیں کیا ہمیشہ وضاحت دیتیں ہیں
چھوٹی بہن کہتی ہے کہ تم لٹریچر پڑھ کر کیا کرو گی زیادہ سے زیادہ ٹیچر ہی لگ جاؤ گی نا ، آئی ٹی طرف ہی دھیان دو اپنا، دو چار پیسے کما لو گی، یعنی کہ وہی ، جی ہاں آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے ، ہاں نا تو کوئی بات نہیں ہم تو پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں کہ ہمیں بنا عقل کے ہی دنیا میں بھیجا گیا تھا,
جب کہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس بار سی ایس ایس کا امتحا ن پاس کر کے دنیا کو حیران کر دیں ہاہاہاہاہاہاہا، آخر کو خوابوں میں چھچھرے دیکھنے کا ہمارا بھی من کر تا ہے
اور چھوٹے تو مجھ پہ باقاعدہ رعب ڈالتے ہیں ، ایک دن ہم کمپیوٹر پر ہی بیٹھے نیٹ گردی میں مصروف تھے کہ خالہ کی بیٹی جو کہ پانچویں کلاس کی طالبعلم ہےا ور بیٹا جو کہ چہارم میں پڑھتا ہے نے آ کر ہمیں بڑے رعب سے مخاطب کیا ،
کیا ناعمہ آپی اب اٹھ بھی جاؤ نا ہم نے کارٹون دیکھنے ہیں۔ ہم حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ، اور بڑی مسکین سے صورت بنائے ان سے سوال کی جسارت کی،
کہ جب عائشہ(چھوٹی بہن) بیٹھی ہوتی ہے تو اسے تو نہیں کہتے اٹھ جاؤ،
تو انہوں سے بڑی شان سے جواب دیا عائشہ باجی سے ڈر لگتا ہے آپ سے نہیں لگتا ،
اور اس دن سے ہم اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ چھوٹوں پر بھی اپنی دھاک نہیں بیٹھا سکے
پورے گھر بھر میں ایک ہی ہماری لاڈلی ہے، صالحہ، جی ہاں بچپن سے اب تک اماں کے بعد اسکا وقت ہمارے ساتھ ہی گزرتا ہے ، ہمارے لاڈ پیار نے اسے بھی اتنا بگاڑ دیا ہے کہ بس ،ا ب تو اماں سے او ر عائشہ سے اس لئے بھی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کہ تم نے بگاڑا ہے، اب بھگتو ، مگر اتنا بگاڑنے کے باوجود بھی ہمارے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی،
اور اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پچھلے چھ دن سے وہ اور اس سے بڑی بہن خالہ کہ ہاں گئے ہیں چھٹیاں گزارنے کے واسطے اور ہم تھے کہ تیسرے ہی دن اداس ہو گئے ، پر کیا کرتے مجبوری تھی اپنی اداسی کو الفاظ کی زبان نا دے پائے، کل شام ابا جی موبائل لے کے خالو کو فون کیا کہ ذرا دیر کو اپنی لاڈلی بہن کی آواز ہی سن لیں تو انہوں نے کہ خالہ کے نمبر پہ فون کر لو میں ذرا مصروف ہوں ، اور ابا جی تو پہلے ہی دھمکی لگا چکے تھے کہ خبردار بیلنس ضائع نا کرنا آج ہی کروایا ہے بس پھر کیا تھا ڈرتے مارے ہمت ہی نا ہوئی کہ پھر سے فون کر لیتے ہیں۔
اور آج چونکہ میری سالگرہ کا دن تھا صبح ہی صبح خالہ کو فون آیا کہ صالحہ کو بخار ہو گیا ہے اور ہم نے فورا ہی اپنا بیان دینا مناسب سمجھا کہ دیکھا وہاں جا کر میرے بغیر ادا س ہو گئی،،، اماں صبح سے لینے گئی ہیں اور ہم انتظار کر رہےہیں کہ اب بھی آئی اب بھی آئی ، اور اسی انتطا ر میں دوپہر بھر ہمیں نیند بھی نہیں آئی۔۔ خیر اب وہ آگئی تو ہمیں سکون ہوا ہے،،
اور ہماری دوستوں کے خیا ل ہمارے بارے میں کچھ ایسے ہیں کہ ہم ان کے لئے انٹر ٹینمنٹ کا اچھا ذریعہ ہیں، البتہ انٹر نیٹ پر ہماری بونگیاں دیکھ کر انکو کبھی یقین نہیں آیا کہ میں بظاہر ہنس مکھ سی کڑی زندگی میں کبھی کسی لمحے میں سنجیدہ بھی ہو سکتی ہوں
یہ تو تھی ہماری کچھ نااہلی ، اور لاڈ پیار کی داستان ، اور ایسا کردار نبھاتے نبھاتے آج پورے بائیس سال ہو گئے ہیں
محبت وہ لفظ کہ جسے سن کر دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہو جاتا ہے، وہ جذبہ کہ جو دل کی سر زمین پر ایک طوفان برپا کر دیتا ہے، وہ مرض کہ جس کو لگ جائے تو لاعلاج قرار دے دیا جا تا ہے، محبت وہ حقیقت ہے کہ جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، بہت سے دلو ں کو خوشیاں سے ہمکنا ر ، بہت سے دلوں کو اجاڑ کر بنجر کر دینے ، اور بہت سے دلوں کو زندگی کی قید سے آزاد کر دینے والا یہ جذبہ جس سے شاید ہی دنیا کا کوئی انسان بچ پا یا ہو،
محبت ایک ایسا لفظ کہ جس پر دنیا کے تما م الفا ظ ختم ہیں، بڑے بڑے شاعروں کے اپنی شاعری کو محبت کے نام کر ڈالا ، بڑے بڑے ادبیوں نے محبت کے نام پر کاغذ سیاہ کر ڈالے، کتا بوں پر کتابیں لکھی گئیں،
محبت دن کی طرح ہوتی ہے، جس کے تین پہر ہی محبت کا سرمایہ ہوتے ہیں ،
صبح جو دیکھنے میں بہت بھلی اور خوبصور ت سی لگتی ہے، اسی صبح کی طرح محبوب کا ساتھ بھی بہت بھلا اور خوبصورت محسوس ہوتا ہے ، زندگی میں ایک عجیب سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے ، وہ احساس جو ہمیں ساری دنیا میں منفرد کر دے، وہ احساس کے جو ہمیں ہماری ہی نظر میں برتری کا احساس دلا دے،
پر محبت کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر صبح ہوئی ہے تو دوپہر بھی قریب ہی ہے ، ایسی دوپہر کہ جون کہ جو جون کے تپتے دنوں میں اندر کو جھلسا کر راکھ کر ڈالے گی،
ایسی گرمی کہ جو ہماری تمام تر توانائیوں کو سلب کر لے گی ہم سے ہمارا غرور چھین لے گی،
بالکل ایسے ہی محبوب دھوکہ دے یا چھوڑ کر چلا جائے ( دھوکہ دینے والے اور جھوٹ بولنے والے کبھی محبت نہیں کرتے صرف ٹائم پاس کرتے ہیں)
یا زمانے کی رسموں کے سامنے مجبور ہو جائیں تو یو ں ہی لگتا ہے کہ جیسے 21ہم جون کی تپتی دوپہر میں بنا سائبان کے کسی سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے بھکاری ہیں، اور یہ دوپہر کبھی ختم نہیں ہوگی ، ہماری فریاد ، ہمارا رونا بلکنا کبھی کام نہیں آئے گا ،
پر ایسا نہیں ہوتا دوپہر بیت جاتی ہے ، شام آ جاتی ہے ، جھولی میں یادیں رہ جاتیں ہیں،دل کسی مسافر کی طرح ان یادوں کو لئے بھٹکتا ہے پر منزل کا کہیں پتا نہیں ہوتا ،
اور پھر ہر روز کی طرح وہ دن گزر جاتا ہے ، رات اپنے پر پھیلاتی ہے ، پتا نہیں کیوں یہ رات اتنی مہربان کیوں ہوتی ہے، میٹھی میٹھی یادوں کی کسک میں رات کا اندھیرا دل کی زمین کو ہولے ہولے سے کھرچتا رہتا ہے، تنہائی دل کے دروازے پر چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے ، یوں لگتا ہے زندگی ٹھہر گئی ہو، پر ایسا نہیں ہوتا ،وقت کب کسی کا غلا م ہوتا ہے؟؟ یہ تو آتا ہے اور گزر جاتا ہے ، وقت کب یہ کسی کی پروا کرتا ہے!!!!
زندگی کی دن یوں ہی پورے ہوتے رہتے ہیں او ر آخرکارمحبت اپنے تمام تر، خوشگواریت، ویرانی، تنہائی اور یادوں کے ساتھ دل کے نہاں خانوں میں دفن ہو جاتی ہے۔۔
محبت ایک ایسا لفظ کہ جس پر دنیا کے تما م الفا ظ ختم ہیں، بڑے بڑے شاعروں کے اپنی شاعری کو محبت کے نام کر ڈالا ، بڑے بڑے ادبیوں نے محبت کے نام پر کاغذ سیاہ کر ڈالے، کتا بوں پر کتابیں لکھی گئیں،
محبت دن کی طرح ہوتی ہے، جس کے تین پہر ہی محبت کا سرمایہ ہوتے ہیں ،
صبح جو دیکھنے میں بہت بھلی اور خوبصور ت سی لگتی ہے، اسی صبح کی طرح محبوب کا ساتھ بھی بہت بھلا اور خوبصورت محسوس ہوتا ہے ، زندگی میں ایک عجیب سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے ، وہ احساس جو ہمیں ساری دنیا میں منفرد کر دے، وہ احساس کے جو ہمیں ہماری ہی نظر میں برتری کا احساس دلا دے،
پر محبت کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر صبح ہوئی ہے تو دوپہر بھی قریب ہی ہے ، ایسی دوپہر کہ جون کہ جو جون کے تپتے دنوں میں اندر کو جھلسا کر راکھ کر ڈالے گی،
ایسی گرمی کہ جو ہماری تمام تر توانائیوں کو سلب کر لے گی ہم سے ہمارا غرور چھین لے گی،
بالکل ایسے ہی محبوب دھوکہ دے یا چھوڑ کر چلا جائے ( دھوکہ دینے والے اور جھوٹ بولنے والے کبھی محبت نہیں کرتے صرف ٹائم پاس کرتے ہیں)
یا زمانے کی رسموں کے سامنے مجبور ہو جائیں تو یو ں ہی لگتا ہے کہ جیسے 21ہم جون کی تپتی دوپہر میں بنا سائبان کے کسی سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے بھکاری ہیں، اور یہ دوپہر کبھی ختم نہیں ہوگی ، ہماری فریاد ، ہمارا رونا بلکنا کبھی کام نہیں آئے گا ،
پر ایسا نہیں ہوتا دوپہر بیت جاتی ہے ، شام آ جاتی ہے ، جھولی میں یادیں رہ جاتیں ہیں،دل کسی مسافر کی طرح ان یادوں کو لئے بھٹکتا ہے پر منزل کا کہیں پتا نہیں ہوتا ،
اور پھر ہر روز کی طرح وہ دن گزر جاتا ہے ، رات اپنے پر پھیلاتی ہے ، پتا نہیں کیوں یہ رات اتنی مہربان کیوں ہوتی ہے، میٹھی میٹھی یادوں کی کسک میں رات کا اندھیرا دل کی زمین کو ہولے ہولے سے کھرچتا رہتا ہے، تنہائی دل کے دروازے پر چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے ، یوں لگتا ہے زندگی ٹھہر گئی ہو، پر ایسا نہیں ہوتا ،وقت کب کسی کا غلا م ہوتا ہے؟؟ یہ تو آتا ہے اور گزر جاتا ہے ، وقت کب یہ کسی کی پروا کرتا ہے!!!!
زندگی کی دن یوں ہی پورے ہوتے رہتے ہیں او ر آخرکارمحبت اپنے تمام تر، خوشگواریت، ویرانی، تنہائی اور یادوں کے ساتھ دل کے نہاں خانوں میں دفن ہو جاتی ہے۔۔
”ہمارا معاشرہ برُے انسانوں سے بھرا پڑا ہے“ یہ وہ عام سا فقرہ ہے جو روز مرہ زندگی میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان کبھی بھی بُرا پیدا نہیں ہوتا۔ وہ پاک وصاف اس دنیا میں آتا ہے۔
تو پھر کیا چیز ہے جو اسے بُرا بنا دیتی ہے؟
میرے خیال میں گھر کا ماحول، والدین کی عدم توجہ اور معاشرہ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اور اس بات ثابت کرنے کے میں خود کو ایک مثال دیا کرتی ہوں کہ ایک مسلمان کا بچہ مسلمان ہی بنتا ہے،اسے نماز، روزے ،قرآن کی تربیت دی جاتی ہے۔اور ہندو کا بچہ ہندو ہی بنے گا اسے ہندو ازم کی تربیت دی جائے گی۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہندو کا بچہ ہندو ازم کو نا مانے اور ہمارے مذہب اسلام کا راستہ اختیار کرلے۔ یا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا کرے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا نہیں ہوتا ۔ ہوتا ہے جس کو اللہ ہدایت کی توفیق دے اور جیسے سیدھے راستے کی طرف منتخب کرے وہ لوگ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے شیکسپیئر نے نظم لکھی ”آل دی وڑلڈ از سٹیج“
اور اس میں وہ لکھتا ہے کہ انسان اس دنیا میں آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مطلب انسان کیا کردار ادا کے گا یہ لکھ دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات میں اس قدر مانتی نہیں ہوں اور وہ اس لئے انسان کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں سوائے اس کے ارادے کے ، تو اگر انسان ارادے کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تو پھر وہ خود کو کیوں نہیں بدل سکتا؟
بات یہ ہے کہ ایک انسان جوہمیشہ اچھا ہی کام کرتا آیا ہے، اسے بُرا کام کرنا کیسا لگے گا؟
اور وہ انسان کہ جس نے دھوکے فریب کے سوا کچھ کیا ہی نہیں اس کے لیے بھی اچھا کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں عام لوگوں کے خیالات،رویے،خواہشات اور ارادے بہت منتشر ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ ہم اپنی سوچ کولامحدود کر سکتے ہیں جب ہم اپنی ذات کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بات ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔
پھر ایک بُرا انسان اگر بُرائی کر کر کے تھک جائے اور سیدھے راستے کی طرف آنا چاہے تو ہمارا معاشرہ اسے ایک اچھےانسان کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کرتا۔مطلب ایک وہ انسان کہ جو لوگوں کی نظر میں معزز ہے ہمیشہ معزز ہی رہےگا چاہے وہ کتنے ہی غلط کام کرلے اور ایک بُرا انسان ہمیشہ بُرا ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کام کر لے۔
اب ایک ڈاکو اور چور کی مثال لے لیں جن کے نام پولیس والوں فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ وہ چاہے یہ کام چھوڑ بھی دیں مگر جب بھی کوئی واردات ہوگی پولیس پہلے یہ پتا لگائے کہ فلاں ڈاکو اس دن کہاں تھا۔ یعنی جینے نہیں دینی عزت کی زندگی۔
اب اگر ایک چور مسجد میں نماز پڑھتا ہوا مل جائے تو لوگ کہتے ہیں ”نوسو چوہے کھو کے بلی
حج نوں چلی“
اور یہی لوگ ڈرتے ہیں اس بندے سے جب وہ اسلحے کے زور پہ لوٹتا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم برداشت نہیں کرتے موقع نہیں دیتے کسی کو کہ سنور جائے۔ یہاں پولیس والے،بیوروکریٹ،اپوزیشن،حک ومت سب ہی بہروپئے ہیں سب ہی بُرے ہیں مگر ایک وہ انسان جو کہ ہے ہی چور اس میں کوئی بہروب نہیں ہمارے لئے ایک وہ ہی بُراہے۔
لوگ بڑے آرام سے غلط کام کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر اگر کو غلط بندہ اٹھ کے اچھا کام شروع کر سے تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ”آکی کر دا اے“؟
اللہ ہمیں برداشت کی توفیق دے۔
آمین
تو پھر کیا چیز ہے جو اسے بُرا بنا دیتی ہے؟
میرے خیال میں گھر کا ماحول، والدین کی عدم توجہ اور معاشرہ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اور اس بات ثابت کرنے کے میں خود کو ایک مثال دیا کرتی ہوں کہ ایک مسلمان کا بچہ مسلمان ہی بنتا ہے،اسے نماز، روزے ،قرآن کی تربیت دی جاتی ہے۔اور ہندو کا بچہ ہندو ہی بنے گا اسے ہندو ازم کی تربیت دی جائے گی۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہندو کا بچہ ہندو ازم کو نا مانے اور ہمارے مذہب اسلام کا راستہ اختیار کرلے۔ یا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا کرے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا نہیں ہوتا ۔ ہوتا ہے جس کو اللہ ہدایت کی توفیق دے اور جیسے سیدھے راستے کی طرف منتخب کرے وہ لوگ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے شیکسپیئر نے نظم لکھی ”آل دی وڑلڈ از سٹیج“
اور اس میں وہ لکھتا ہے کہ انسان اس دنیا میں آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مطلب انسان کیا کردار ادا کے گا یہ لکھ دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات میں اس قدر مانتی نہیں ہوں اور وہ اس لئے انسان کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں سوائے اس کے ارادے کے ، تو اگر انسان ارادے کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تو پھر وہ خود کو کیوں نہیں بدل سکتا؟
بات یہ ہے کہ ایک انسان جوہمیشہ اچھا ہی کام کرتا آیا ہے، اسے بُرا کام کرنا کیسا لگے گا؟
اور وہ انسان کہ جس نے دھوکے فریب کے سوا کچھ کیا ہی نہیں اس کے لیے بھی اچھا کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں عام لوگوں کے خیالات،رویے،خواہشات اور ارادے بہت منتشر ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ ہم اپنی سوچ کولامحدود کر سکتے ہیں جب ہم اپنی ذات کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بات ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔
پھر ایک بُرا انسان اگر بُرائی کر کر کے تھک جائے اور سیدھے راستے کی طرف آنا چاہے تو ہمارا معاشرہ اسے ایک اچھےانسان کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کرتا۔مطلب ایک وہ انسان کہ جو لوگوں کی نظر میں معزز ہے ہمیشہ معزز ہی رہےگا چاہے وہ کتنے ہی غلط کام کرلے اور ایک بُرا انسان ہمیشہ بُرا ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کام کر لے۔
اب ایک ڈاکو اور چور کی مثال لے لیں جن کے نام پولیس والوں فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ وہ چاہے یہ کام چھوڑ بھی دیں مگر جب بھی کوئی واردات ہوگی پولیس پہلے یہ پتا لگائے کہ فلاں ڈاکو اس دن کہاں تھا۔ یعنی جینے نہیں دینی عزت کی زندگی۔
اب اگر ایک چور مسجد میں نماز پڑھتا ہوا مل جائے تو لوگ کہتے ہیں ”نوسو چوہے کھو کے بلی
حج نوں چلی“
اور یہی لوگ ڈرتے ہیں اس بندے سے جب وہ اسلحے کے زور پہ لوٹتا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم برداشت نہیں کرتے موقع نہیں دیتے کسی کو کہ سنور جائے۔ یہاں پولیس والے،بیوروکریٹ،اپوزیشن،حک ومت سب ہی بہروپئے ہیں سب ہی بُرے ہیں مگر ایک وہ انسان جو کہ ہے ہی چور اس میں کوئی بہروب نہیں ہمارے لئے ایک وہ ہی بُراہے۔
لوگ بڑے آرام سے غلط کام کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر اگر کو غلط بندہ اٹھ کے اچھا کام شروع کر سے تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ”آکی کر دا اے“؟
اللہ ہمیں برداشت کی توفیق دے۔
آمین
اے دوست
اگر رشتہ نبھانا ہے
تو پھر یہ سوچ لینا کہ
تعلق ٹوٹ نا جائے
کوئی بھی روٹھ نا جائے
میری اک بات سن لوتم
جوباتیں تنگ کرتی ہوں
تمھارا دل جلاتی ہوں
اگر کوئی شکایت ہو
کسی کی کوئی غلطی ہو
تو پھر تم چپ نہیں رہنا
میری بس التجا یہ ہے
جو دل میں ہو وہ سب کہنا
حیاتی چار دن کی ہے
جو ہنس کے بیت جاتے ہیں
وہ لمحے یاد رہتے ہیں
مگر خاموش رہنے سے
اکیلے نیر بہانے سے
یوں اپنا دل جلانے
کسی کا کچھ نہیں جاتا
یہ شکوے غم بڑھاتے ہیں
اور یوں
تعلق ٹوٹ جاتے ہیں۔
ناعمہ عزیز
اگر رشتہ نبھانا ہے
تو پھر یہ سوچ لینا کہ
تعلق ٹوٹ نا جائے
کوئی بھی روٹھ نا جائے
میری اک بات سن لوتم
جوباتیں تنگ کرتی ہوں
تمھارا دل جلاتی ہوں
اگر کوئی شکایت ہو
کسی کی کوئی غلطی ہو
تو پھر تم چپ نہیں رہنا
میری بس التجا یہ ہے
جو دل میں ہو وہ سب کہنا
حیاتی چار دن کی ہے
جو ہنس کے بیت جاتے ہیں
وہ لمحے یاد رہتے ہیں
مگر خاموش رہنے سے
اکیلے نیر بہانے سے
یوں اپنا دل جلانے
کسی کا کچھ نہیں جاتا
یہ شکوے غم بڑھاتے ہیں
اور یوں
تعلق ٹوٹ جاتے ہیں۔
ناعمہ عزیز
کبھی جب بہت د ہو جاتے ہیں تو دل کرتا ہے کچھ لکھ ڈالوں اور میرے دل کا بو جھ ہلکا ہو جائے ۔ میں سوچتی ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسا بنایا ہے ۔ میں اس اصول سے ہمیشہ ہی باغی رہی ہوں کہ انسان کو جب کوئی مسئلہ ہو تو وہ کسی سے کہہ دے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسطرح اس مسئلے کا حل نکل آتا ہماری پریشانیاں آسان ہو جاتیں ہیں ، اور ہم جلدی اس مسئلے سے چھٹکارا پا لیتے ہیں ،
مگر میرا طریقہ اس سے کچھ الگ ہے، کہ انسان کوخود اپنے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے ، ( اور آپ میں سے اکثر کی رائے یہ ہوگی کہ اس ضمن میں انسان چاہے گھٹ گھٹ کر مر جائے مگر اسے اپنی پریشانی سے نکلنے کی کوئی راہ ہی نا ملے)
مگر میرا چھوٹا اور کم عقل دماغ مجھ سے یہی کہتا ہے کہ انسا ن اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اکیلا ہی جائے گا اور ایک انسان اگر اپنے آپ کو مضبو ط کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ خود کو پیش آنے والی مشکلات کو اپنی ذات تک محدود رکھے ان کا جواں مردی سے مقابلہ کرے اور مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اس طرح انسان جذباتی طور پر مضبو ط ہوجاتا ہے۔
پتا نہیں مجھے ٹھیک لگتا ہے یا غلط!!!!
مگر بارہا اپنی مشکلات کو اپنے تک محدود رکھ کر اکیلے میں ان کا حل تلاش کر نا اور باقی سب کے ساتھ بیٹھ کر زبردستی ہنسنا اور اپنے ذہن کا بوجھ کم کرنے کے چکر میں اپنی چھوٹی بہن کو تنگ کرنا مجھے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ میں اس اصول سے باغی نہیں ہوں بلکہ اپنے آپ سے باغی ہوں۔
اکیلے بیٹھ کر اپنے آپ سے لڑنا اور خود کومصروف کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بنانا کہ مجھے ا ن خیالات سے نجات مل جائے یہ سب مجھے کسی بھی اذیت سے کم نہیں لگتا۔
اور سونے پہ سہاگا کہ جب کوئی مشکل بھی حل نا ہو رہی ہو تو بس پھر میں چڑچڑی ہو جاتی ہوں ، ہر ایک سے الجھنا اور اپنے آپ قابو رکھنے کے لئے تمام طریقے آزمانا ۔ پر مشکل تو مشکل ہے جب تک حل نا ہوجائے آرام کیسے آئے ۔
اور بس پھر میں دوست کی طرف چلی جاتی ہوں کہ اور اسے کہہ دیتی ہوں کہ یار اس مصیبت سے میری جان چھڑا دےJ
مطلب کہ میں اس اصول سے بغاوت کرتے ہوئے بھی اس اصول پر عمل پیرا ہوتی ہوں جب اپنے آپ سے تنگ آجاتی ہوں۔ بارہا خود کو سمجھایا ہے کہ نا ایسا کیا کروں مگر وہ ناعمہ ہی کیا جو باز آجائے!!!
اردو سیارہ پر بلاگ منتقل ہوئے کافی روز گزر گئے ہیں کچھ لوگ ایسے ہیں کو مجھے جانتے ہیں اردو محفل کی وجہ سے پر جو مجھےسے واقف نہیں ہیں سوچا ان کے لئے اپنا چھوٹا سا تعارف چھوڑ دوں۔۔
میرا نام ناعمہ عزیز ہے، ناعمہ عزیز ہمشیرہ شاکر عزیز۔۔ شاکر بھائی مجھ سے بڑے ہیں
گریجویشن مکمل کر چکی ہوں اور اس سال ماسٹزز کرنے کا ارادہ ہے۔ باقی اللہ کو جو منظور۔
ویسے میں بولتی بہتتت زیادہ ہوں پر اب چونکہ بڑی ہوگئی ہوں اس لئے کوشش یہ بھی ہے کہ ذرا زبان کو قید کر کے رکھوں۔
لوگوں پہ تنقید کرنا مجھے بالکل پسند نہیں ہے ۔ اور اپنے بارے میں کیا بتاؤں؟؟؟؟
شاعری کا شوق ہوا کرتا تھا پر اب ذرا کم ہے ، صوفیانہ کلام صوفیانہ شاعری میں گھس گھس کے اپنا چھوٹا سا دماغ صرف کرتی رہتی ہوں کہ سمجھ سکوں ۔
بس اتنا ہی کافی ہے۔
بچپن میں آپ سب سے ایک سوال ضرور پوچھا گیا ہو گا۔
ہم کون ہیں؟
آپ نے یہی جواب دیا ہوگا۔
ہم مسلمان ہیں۔
میں ’’داستان ایمان فروشوں کی‘‘ پڑھ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ ایک اس دور کے مسلمان تھے جن کی زندگی کا مقصد تھا، ایک عز م تھا، ان کے اندر کچھ کر دینے کا جنون تھا، مسلمان چاہتے تھے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی جانیں تک قربان کر دینے کو تیار ہو جاتے تھے اور صلیبی چاہتے تھے کہ اسلام دنیا کے نقشے سے مٹ جائے اور اس مقصد کے لئے وہ کس قسم کے گندے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے،
صلیبی کہتے تھے کہ ان کا مقصد کامیاب ہو گا ایک دن مسلمان نام کے مسلمان رہ جائیں گے ان کے کردار میں مسلمانوں کا کوئی عنصر نہیں ہو گا۔
تب بھی مسلمان نوجوانوں کو کس کس راستے پے ڈالا گیا ان کے کرداروں کو کچلا گیا ان کو راستے سے بھٹکانے کے لئے انہی کی بہن بیٹیوں کو اغوا کر کے تربیت دی گئی اور انہی کو اس کا کردار خراب کرنے کی خاطر استعمال کیا گیا۔
یہ تو میں نے ایک مختصر سی بات کی ہے ایک خلاصہ پیش کیا ہے،
اس کے بعد اگر ہم پاکستان کو حاصل کرنے پہ نظر دوڑائیں تو دیکھتے ہیں کہ ہندو پاکستان برصغیر کو تقسیم کرنے کے حق میں نا تھے ، وہ مسلمانوں پہ اپنی حکمرانی کرنا چاہتے تھے ، پاکستان بنانے کا عمل اور مسلمانوں کا جذبہ تب بھی قابلِ دید تھا، آفرین ہے ان مسلمانوں پہ جنہوں نے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیا بیٹوں کی عزتیں لوٹی گئیں ، بچوں کو قتل کیا گیا ، کیا نہیں کیا گیا تھا؟؟؟؟ ہم نے وہ روح فرسا منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے ، ہم اس خون ریزی سے واقف ہی نہیں ہیں۔
چلئے کچھ نظر آج کے پاکستان اور مسلمانوں پہ نظر ڈال لیں۔
ہماری نوجوان نسل آج بھی اسی بے راہ روی کا شکار ہے صلیبیوں کا کہا آج پورا ہو گیا۔ ہم لو گ کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟
انٹر نیٹ پہ چیٹینگ !!! موبائل پہ میسج!!! لڑکیوں کا پیچھا کرنا!!! ان پہ گندے غلیظ جملے کسنا!!!
ہماری نوجوان نسل یہ سب مشغلے بہت عام ہیں، سوچنے کی بات ہے ہمارے درمیان تو صلیبی نہیں آ گئے !!!
جی ہاں ایسا ہی ہے ہمارے ہاں بھی صلیبی موجود ہیں! زرداری صاحب اقتدار میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں ؟؟؟ امریکہ سے حرام مال لے کے کھا رہے ہیں ۔
جس قوم کا حکمران ایسا ہے اس کی قوم کا کیا حا ل ہو گا؟ جب حکمران کا کردار ہی بلند نہیں تو قوم کیسے بے راہ روی کاشکا ر نا ہو؟؟
ہمارے حکمران اتنے اچھے ہیں کہ انکو پروا ہی نہیں کہ قوم کی بیٹی کافروں کے نرغے میں ہے؟؟
ہمارے یہاں دشمنوں کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جاتا ہے اور اپنوں کو مار مار کے ان سے وہ جر بھی اگلوا لیا جاتا ہے جو انہوں نے نا کیا ہو، ہمارے اپنے ہی شریفوں کو مجر م بنا دیتے ہیں!
ہمارے ہی ملک میں آ کے دشمن ایک بندہ مار کے چلے جاتے ہیں اور ہمیں پروا ہی نہیں۔
ہماری نوجوان نسل بگاڑ کا شکار ہے اس میں زیادہ ہاتھ والدین کی عدم تو جہی کا بھی ہے کہ جس عمر میں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے گلے میں لگام ڈالیں اس عمر میں وہ بچوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں! اور ایسی عمر میں جب بچے کو اپنی زندگی کے اہم راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اسے خالی ذہن چھوڑ دیا جائے تو وہ بھٹک جاتا ہے!
اور پھر جس راہ پہ چلتا ہے وہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہوتا!! معاملہ لڑکیوں کو ہو یا لڑکوں کا میں اس حق میں ہی نہیں ہوں کہ آپ ان کو کے ذہنوں کو آزادی دیں ۔ ’خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے‘
میرے مشاہدے کے مطابق ہماری 80 فیصد نسل بگاڑ کا شکار ہے۔
جن میں 50 فیصد لوگ وہ ہیں جو محبت میں ناکام ہو کر بھٹکتے پھرتے ہیں، موت کی باتیں کرتے اور کچھ تو ایسا کر بھی گزرتے ہیں!
اور باقی 20فیصد لوگ وہ ہیں جو ڈگریاں لے بیٹھے ہیں اور ان کو کوئی نوکری ہی نہیں دیتا! رہے 10 فیصد تو وہ اپنے خاندا نی مسئلے مسائل کاشکار ہو ئے ہیں ۔
ہم بس اپنی ذات کو سوچتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کا۔
اسلام کی سر بلندی جیسے مقاصد تو سرے سے ہی دم توڑ گئےہیں۔ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بیرون ملک جا کے لوگوں کو برتن دھونا منظور ہے جس میں اپنی عزت نفس کئی بار کچلی جاتی ہے! مگر پاکستان کو سنوارنا ہمارا کام نہیں ہے۔
ہم کسی کی بھلائی کیا سوچیں گے ہم تو خود اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ہمارا فائدہ ہوجائے کسی کا نقصان ہوتا ہے تو ہمیں اس سے کیا!
ہمارا کیا رتبہ ہے؟ ہمارا کیا مقام ہے؟
ہمارا کردار کس قدر پاکیزہ ہے؟ ہم تو گناہوں میں لتھڑے ہو ئے لوگ ہیں!
ہم پہ کونسی رحمت ہو گی؟ ہماری دعاؤں میں کیا اثر ہو گا!
الٹا آئے روز کوئی نا کوئی آزمائش آئی ہی رہتی ہے!
ہم برائے نام مسلمان ہیں ! اور میرے خیال سے ہم وہ مسلمان بن گئے ہیں جو صلیبی ہمیں دیکھنا چاہتے تھے!
کیا ہمیں اپنی اسی حالت پہ افسو س نہیں کرنا چاہئے!!
حقیقت
نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے،
تمھارے شہر میں لوگو محبت روز بکتی ہے،
امیرِ شہر کے در کا ابھی محتاج ہے مذہب،
ابھی مُلا کے فتووں میں شریعت روز بکتی ہے،
ہمارے خون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالے گا،
خریداروں کے جھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے،
نجانے لطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں،
طوائف کی طرح لوگو قیادت روز بکتی ہے،
کبھی مسجد کے منبر پر کبھی حجرے میں چھپ چھپ کر،
میرے واعظ کے لہجے میں قیامت روز بکتی ہے،
بڑی لاچار ہیں طاہر جبینیں ان غریبوں کی،
کہ مجبوری کی منڈی میں عبادت روز بکتی ہے۔
جب بالی عمر تھی تو چاند دیکھنے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا ، سردیوں کی سرد ٹھٹھرتی راتوں میں بھی چپکے سے چھت پہ جا کے چاند نظارہ کرتی مگر یہ ڈر بھی ہوتا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو پتا نہیں کیا سمجھے گا، بہت شوق ہوتا تھاچاند و بہت دیر تک دیکھوں، اس تک رسائی ہو جائے، اس کی روشنی کو اپنے قریب محسوس کروں،
گرمیوں میں چھت پہ سوتے تھے تو ستاروں بھرا آسمان دیکھتے نیند آ جاتی اور رات کو خواب میں بھی تارے ہی نظر آتے، جب کبھی بادل چھا جاتے تو دل چاہتا کہ کہ درختو ں کی اور پھولوں کی لمبی قطار ہو اور میں چہل قدمی کروں ٹھنڈے موسم کو محسوس کروں اور طرح طرح کے پھولوں کی خوشبو میرے گرد رقص کرتی ہو،
جب کبھی بارش آتی تو دل کرتا کہ سڑکیں صاف ہو جائیں اور ان پہ ننگے پاؤں دور تک چلوں اور کوئی مجھے حیران ہو کے نا دیکھے،
جب ڈھلتی شام پرندے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے اٹکھلیاں کرتے تو دل چاہتا کہ میں بھی ایک آزاد پرندہ ہوتی، کوئی فکر نا ہوتی آزاد ٖفضاؤں میں گھومتی اور پرودگار کی تخلیقات کو دیکھتی۔
جب بہار میں درختوں پہ نئے پھول لگتے تو دل چاہتا کہ وہ یونہی اپنی خوشبو چاروں طرف بکھیرتے رہیں کہیں نا جائیں ، مگر جب بھی خزاں آتی تو اداسیاں اور ویرانیاں خود بہ خود چاروں طرف گھیرا ڈال کر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتیں۔
گرمیوں سے تو میری جان جاتی تھی مگر سردیوں کا موسم تو دل چاہتا تھا کبھی بھی نا گزرے سردیوں کی شام چائے بنانا اور سرد ہوا کو اندر تک محسوس کرکے پرسکون ہونا بہت پسند تھا۔
میں ہر چیز کو محسوس کرتی تھی ہر وہ چیز جسے خالقِ کائنات نے تخلیق کیا مگر میں کبھی بھی حقیقت پسند نہیں رہی ، اس دنیا پہ میری مرضی مسلط نہیں ہو سکتی یہ بات میں نے کبھی بھی نہیں سوچی تھی بس مجھے تو خبط تھا ہر موسم کا ہر رنگ مجھے بھاتا تھا۔
اب جب خوابوں کی عمر گزر گئی تو پتا لگا کہ زندگی کیا ہے ؟؟ دنیا کیا ہے؟؟ دونوں ہی تلخ ہیں ، ہم کچھ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ، اب ہر چیز سے بیزاریت بڑھ گئی ہے، ہر لفظ میں بغاوت ہے، ہر وہ شخص جو میری بات نہیں سنتا یا سن کر اپنی دھونس جماتا ہے ، اور مجھے نہیں سمجھتا اس کے خلاف ایک جنگ برپا ہو جاتی ہے ، ایک اضطراب ہے، ایک ہلچل ہے ، جیسے میں ایک سمندر ہوں اور اندر طوفان ہی طوفان ہے، اپنی ذا ت کی نفی کرتی بھی ہوں نہیں بھی کرتی ، ایک لمحہ میں مثبت اگلے لمحے میں منفی ، پتا نہیں کیوں میری شخصیت میں ٹھہراؤ نہیں آجاتا ، کیوں طوفان تھم نہیں جاتا۔ میں بے حس ہو جانا چاہتی ہوں مگر ہو نہیں پاتی ، ہر کوئی میری شخصیت کی نفی کرتا ہے مگر میں خود نہیں کرپاتی۔ ہر کوئی میرے فیصلے سے اختلاف کرتا ہے مگر مجھ سے نہیں ہوتا ۔ میں کسی ضدی بچے کی طرح دلائل چاہتی ہوں ۔
کیا ہم کسی کی شخصیت کی نفی کر کے کسی کو اچھا انسان بنا سکتے ہیں؟؟؟ اگر ہم کسی کی سننا ہی نہیں چاہتے تو پھر ہم اس سے کس طرح یہ تو قع کر سکتے ہیں کہ اس کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی؟؟؟ اگر ہم کسی کو اس کے کسی چھوٹے اقدام پر نہیں سراہیں گے تو وہ بڑا کام کیسے کرے گا؟؟اگر ہم مسلسل کسی ایک انسان پہ دوسر کو ترجیح دیں گے تو دو صورتیں ہی ہوں گی یا تو وہ بہت اچھا بن جائے گا یا بہت بُرا۔
کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کی ذات کی نفی کریں مگر جب بھی ایسا ہوتا ہے تو اس ماحول میں پرورش پانے والی شخصیت کبھی بھی اچھائی کی طرف مائل نہیں ہو سکتی۔ احساس کمتری انسان کی شخصیت کو روند کے رکھ دیتی ہے۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی ہیں مگر ہم کبھی بھی خود کو ان کا قصوروار ٹھہرانا پسند نہیں کرتے۔
گرمیوں میں چھت پہ سوتے تھے تو ستاروں بھرا آسمان دیکھتے نیند آ جاتی اور رات کو خواب میں بھی تارے ہی نظر آتے، جب کبھی بادل چھا جاتے تو دل چاہتا کہ کہ درختو ں کی اور پھولوں کی لمبی قطار ہو اور میں چہل قدمی کروں ٹھنڈے موسم کو محسوس کروں اور طرح طرح کے پھولوں کی خوشبو میرے گرد رقص کرتی ہو،
جب کبھی بارش آتی تو دل کرتا کہ سڑکیں صاف ہو جائیں اور ان پہ ننگے پاؤں دور تک چلوں اور کوئی مجھے حیران ہو کے نا دیکھے،
جب ڈھلتی شام پرندے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے اٹکھلیاں کرتے تو دل چاہتا کہ میں بھی ایک آزاد پرندہ ہوتی، کوئی فکر نا ہوتی آزاد ٖفضاؤں میں گھومتی اور پرودگار کی تخلیقات کو دیکھتی۔
جب بہار میں درختوں پہ نئے پھول لگتے تو دل چاہتا کہ وہ یونہی اپنی خوشبو چاروں طرف بکھیرتے رہیں کہیں نا جائیں ، مگر جب بھی خزاں آتی تو اداسیاں اور ویرانیاں خود بہ خود چاروں طرف گھیرا ڈال کر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتیں۔
گرمیوں سے تو میری جان جاتی تھی مگر سردیوں کا موسم تو دل چاہتا تھا کبھی بھی نا گزرے سردیوں کی شام چائے بنانا اور سرد ہوا کو اندر تک محسوس کرکے پرسکون ہونا بہت پسند تھا۔
میں ہر چیز کو محسوس کرتی تھی ہر وہ چیز جسے خالقِ کائنات نے تخلیق کیا مگر میں کبھی بھی حقیقت پسند نہیں رہی ، اس دنیا پہ میری مرضی مسلط نہیں ہو سکتی یہ بات میں نے کبھی بھی نہیں سوچی تھی بس مجھے تو خبط تھا ہر موسم کا ہر رنگ مجھے بھاتا تھا۔
اب جب خوابوں کی عمر گزر گئی تو پتا لگا کہ زندگی کیا ہے ؟؟ دنیا کیا ہے؟؟ دونوں ہی تلخ ہیں ، ہم کچھ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ، اب ہر چیز سے بیزاریت بڑھ گئی ہے، ہر لفظ میں بغاوت ہے، ہر وہ شخص جو میری بات نہیں سنتا یا سن کر اپنی دھونس جماتا ہے ، اور مجھے نہیں سمجھتا اس کے خلاف ایک جنگ برپا ہو جاتی ہے ، ایک اضطراب ہے، ایک ہلچل ہے ، جیسے میں ایک سمندر ہوں اور اندر طوفان ہی طوفان ہے، اپنی ذا ت کی نفی کرتی بھی ہوں نہیں بھی کرتی ، ایک لمحہ میں مثبت اگلے لمحے میں منفی ، پتا نہیں کیوں میری شخصیت میں ٹھہراؤ نہیں آجاتا ، کیوں طوفان تھم نہیں جاتا۔ میں بے حس ہو جانا چاہتی ہوں مگر ہو نہیں پاتی ، ہر کوئی میری شخصیت کی نفی کرتا ہے مگر میں خود نہیں کرپاتی۔ ہر کوئی میرے فیصلے سے اختلاف کرتا ہے مگر مجھ سے نہیں ہوتا ۔ میں کسی ضدی بچے کی طرح دلائل چاہتی ہوں ۔
کیا ہم کسی کی شخصیت کی نفی کر کے کسی کو اچھا انسان بنا سکتے ہیں؟؟؟ اگر ہم کسی کی سننا ہی نہیں چاہتے تو پھر ہم اس سے کس طرح یہ تو قع کر سکتے ہیں کہ اس کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی؟؟؟ اگر ہم کسی کو اس کے کسی چھوٹے اقدام پر نہیں سراہیں گے تو وہ بڑا کام کیسے کرے گا؟؟اگر ہم مسلسل کسی ایک انسان پہ دوسر کو ترجیح دیں گے تو دو صورتیں ہی ہوں گی یا تو وہ بہت اچھا بن جائے گا یا بہت بُرا۔
کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کی ذات کی نفی کریں مگر جب بھی ایسا ہوتا ہے تو اس ماحول میں پرورش پانے والی شخصیت کبھی بھی اچھائی کی طرف مائل نہیں ہو سکتی۔ احساس کمتری انسان کی شخصیت کو روند کے رکھ دیتی ہے۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی ہیں مگر ہم کبھی بھی خود کو ان کا قصوروار ٹھہرانا پسند نہیں کرتے۔
ساری پاکستانی اور ہندوستانی قوم پاگل ہوئی پڑی تھی 30 مارچ کو سیمی فائنل دیکھنے کے لئے، ہندوستا ن میں پوجا پاٹ اور پاکستان میں نمازیں ، نفل اور دعاؤں میں ساری لوگ مشغول عمل تھے۔ جب بھارتی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ یہ دعا کی جاتی تھی کہ آؤٹ ہو جائے، اور جب پاکستانی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ دل دھڑکتا تھا کہ آؤٹ نا ہو جائے اور جب ایسا کو ئی چانس نظر نا آتا تو دعا کرتے کہ چوکا ، چھکا لگ جائے۔
پر جب آفریدی آؤٹ ہو گیا تو میں تو مایوس ہو کر سو گئی کہ بس اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب تو کو ئی معجزہ ہی ہے جو ان کو ہارنے سے بچا لے۔
دراصل پاکستان بھارت کا میچ پاکستانیوں کے لئے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھا، ہم لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک کے اپنی نجی زندگی کے مسائل کو بھول کر خوشی کا بہانہ چاہتے تھے، دنیا چپ تھی، جب کوئی چوکا لگتا تو سیٹیوں ، شور اور ہوائی فائر نگ کی آواز سنائی دیتی ورنہ سڑکوں پہ گاڑیوں کے ہارن بھی عام دنوں سے کم ہی سنائی دے رہے تھے، ہو کا عالم تھا، اور یہ ہمارے جذبات تھے، توقعات تھیں ، ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان اس بار عالمی کپ جیت کر ہی آئے گا۔ اور پورے ملک میں خوشی پھر سے لوٹ آئے گی۔
پاکستان کے ہارنے پر سب پاکستانیوں کو دکھ ہوا ، سب ہی اداس تھے میں خود دل گرفتہ تھی۔ مگر ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بات وہی ہے کہ ہمیں تو ہماری قسمت کا ہی ملنا تھا مل گیا۔ اب ہم خوش ہو ں یا اداس اس سے کیا فرق کسی کو نہیں پڑنا ہمارا ہی نقصان ہو نا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ
’’خوش نصیب وہ نہیں ہوتا جس کا نصیب اچھا ہوتا بلکہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہو۔‘‘
دنیا امیدپہ قائم ہے اور انسانوں کی زندگی کا انحصار بھی امید پر ہے اگر امید نا ہو پے در پے آئی ناکامیوں اور نقصانات پہ ہم مر جانے کو ترجیح دیں۔
اور ہم آج بھی اسی امید پہ قائم ہیں کہ اب نہیں تو اگلی بار ہم عالمی کب جیتیں گے ہم دنیا کو باور کروایں گے کہ ہم باصلاحیت لوگ ہیں۔
ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے کسی ایک فریق کو تو ہارنا ہی ہے۔
خیر میں تو بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جیسے میں نے میچ دیکھا ہی نہیں
پر جب آفریدی آؤٹ ہو گیا تو میں تو مایوس ہو کر سو گئی کہ بس اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب تو کو ئی معجزہ ہی ہے جو ان کو ہارنے سے بچا لے۔
دراصل پاکستان بھارت کا میچ پاکستانیوں کے لئے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھا، ہم لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک کے اپنی نجی زندگی کے مسائل کو بھول کر خوشی کا بہانہ چاہتے تھے، دنیا چپ تھی، جب کوئی چوکا لگتا تو سیٹیوں ، شور اور ہوائی فائر نگ کی آواز سنائی دیتی ورنہ سڑکوں پہ گاڑیوں کے ہارن بھی عام دنوں سے کم ہی سنائی دے رہے تھے، ہو کا عالم تھا، اور یہ ہمارے جذبات تھے، توقعات تھیں ، ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان اس بار عالمی کپ جیت کر ہی آئے گا۔ اور پورے ملک میں خوشی پھر سے لوٹ آئے گی۔
پاکستان کے ہارنے پر سب پاکستانیوں کو دکھ ہوا ، سب ہی اداس تھے میں خود دل گرفتہ تھی۔ مگر ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بات وہی ہے کہ ہمیں تو ہماری قسمت کا ہی ملنا تھا مل گیا۔ اب ہم خوش ہو ں یا اداس اس سے کیا فرق کسی کو نہیں پڑنا ہمارا ہی نقصان ہو نا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ
’’خوش نصیب وہ نہیں ہوتا جس کا نصیب اچھا ہوتا بلکہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہو۔‘‘
دنیا امیدپہ قائم ہے اور انسانوں کی زندگی کا انحصار بھی امید پر ہے اگر امید نا ہو پے در پے آئی ناکامیوں اور نقصانات پہ ہم مر جانے کو ترجیح دیں۔
اور ہم آج بھی اسی امید پہ قائم ہیں کہ اب نہیں تو اگلی بار ہم عالمی کب جیتیں گے ہم دنیا کو باور کروایں گے کہ ہم باصلاحیت لوگ ہیں۔
ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے کسی ایک فریق کو تو ہارنا ہی ہے۔
خیر میں تو بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جیسے میں نے میچ دیکھا ہی نہیں
ساری پاکستانی اور ہندوستانی قوم پاگل ہوئی پڑی تھی 30 مارچ کو سیمی فائنل دیکھنے کے لئے، ہندوستا ن میں پوجا پاٹ اور پاکستان میں نمازیں ، نفل اور دعاؤں میں ساری لوگ مشغول عمل تھے۔ جب بھارتی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ یہ دعا کی جاتی تھی کہ آؤٹ ہو جائے، اور جب پاکستانی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ دل دھڑکتا تھا کہ آؤٹ نا ہو جائے اور جب ایسا کو ئی چانس نظر نا آتا تو دعا کرتے کہ چوکا ، چھکا لگ جائے۔
پر جب آفریدی آؤٹ ہو گیا تو میں تو مایوس ہو کر سو گئی کہ بس اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب تو کو ئی معجزہ ہی ہے جو ان کو ہارنے سے بچا لے۔
دراصل پاکستان بھارت کا میچ پاکستانیوں کے لئے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھا، ہم لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک کے اپنی نجی زندگی کے مسائل کو بھول کر خوشی کا بہانہ چاہتے تھے، دنیا چپ تھی، جب کوئی چوکا لگتا تو سیٹیوں ، شور اور ہوائی فائر نگ کی آواز سنائی دیتی ورنہ سڑکوں پہ گاڑیوں کے ہارن بھی عام دنوں سے کم ہی سنائی دے رہے تھے، ہو کا عالم تھا، اور یہ ہمارے جذبات تھے، توقعات تھیں ، ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان اس بار عالمی کپ جیت کر ہی آئے گا۔ اور پورے ملک میں خوشی پھر سے لوٹ آئے گی۔
پاکستان کے ہارنے پر سب پاکستانیوں کو دکھ ہوا ، سب ہی اداس تھے میں خود دل گرفتہ تھی۔ مگر ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بات وہی ہے کہ ہمیں تو ہماری قسمت کا ہی ملنا تھا مل گیا۔ اب ہم خوش ہو ں یا اداس اس سے کیا فرق کسی کو نہیں پڑنا ہمارا ہی نقصان ہو نا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ
’’خوش نصیب وہ نہیں ہوتا جس کا نصیب اچھا ہوتا بلکہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہو۔‘‘
دنیا امیدپہ قائم ہے اور انسانوں کی زندگی کا انحصار بھی امید پر ہے اگر امید نا ہو پے در پے آئی ناکامیوں اور نقصانات پہ ہم مر جانے کو ترجیح دیں۔
اور ہم آج بھی اسی امید پہ قائم ہیں کہ اب نہیں تو اگلی بار ہم عالمی کب جیتیں گے ہم دنیا کو باور کروایں گے کہ ہم باصلاحیت لوگ ہیں۔
ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے کسی ایک فریق کو تو ہارنا ہی ہے۔
خیر میں تو بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جیسے میں نے میچ دیکھا ہی نہیں
پر جب آفریدی آؤٹ ہو گیا تو میں تو مایوس ہو کر سو گئی کہ بس اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب تو کو ئی معجزہ ہی ہے جو ان کو ہارنے سے بچا لے۔
دراصل پاکستان بھارت کا میچ پاکستانیوں کے لئے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھا، ہم لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک کے اپنی نجی زندگی کے مسائل کو بھول کر خوشی کا بہانہ چاہتے تھے، دنیا چپ تھی، جب کوئی چوکا لگتا تو سیٹیوں ، شور اور ہوائی فائر نگ کی آواز سنائی دیتی ورنہ سڑکوں پہ گاڑیوں کے ہارن بھی عام دنوں سے کم ہی سنائی دے رہے تھے، ہو کا عالم تھا، اور یہ ہمارے جذبات تھے، توقعات تھیں ، ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان اس بار عالمی کپ جیت کر ہی آئے گا۔ اور پورے ملک میں خوشی پھر سے لوٹ آئے گی۔
پاکستان کے ہارنے پر سب پاکستانیوں کو دکھ ہوا ، سب ہی اداس تھے میں خود دل گرفتہ تھی۔ مگر ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بات وہی ہے کہ ہمیں تو ہماری قسمت کا ہی ملنا تھا مل گیا۔ اب ہم خوش ہو ں یا اداس اس سے کیا فرق کسی کو نہیں پڑنا ہمارا ہی نقصان ہو نا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ
’’خوش نصیب وہ نہیں ہوتا جس کا نصیب اچھا ہوتا بلکہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہو۔‘‘
دنیا امیدپہ قائم ہے اور انسانوں کی زندگی کا انحصار بھی امید پر ہے اگر امید نا ہو پے در پے آئی ناکامیوں اور نقصانات پہ ہم مر جانے کو ترجیح دیں۔
اور ہم آج بھی اسی امید پہ قائم ہیں کہ اب نہیں تو اگلی بار ہم عالمی کب جیتیں گے ہم دنیا کو باور کروایں گے کہ ہم باصلاحیت لوگ ہیں۔
ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے کسی ایک فریق کو تو ہارنا ہی ہے۔
خیر میں تو بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جیسے میں نے میچ دیکھا ہی نہیں
میں یقین رکھتی ہوں کہ ہر انسان کو ہر لمحے ہر دن اور زندگی میں اُتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ اُس کی قسمت ہو، تقدیر تو رب کی ذات نے لکھ دی ہے مگر تدبیر ہمیں ہی کرنی ہے۔ اور ہم کرتے ہیں ، ہر صبح سے شام تک ہم تدبیر کرتے ہیں، ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ، کس راہ پہ چلنا ہے کس پہ نہیں چلنا ، کس کو خوش رکھنا ہے کس سے بات تک نہیں کرنی۔
مگر اس سب کے باوجود ہم وہ بھی کرتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے ، ہم وہ کام بھی کرتے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہو تا ، ہم جانے انجانے میں لوگوں کو دکھ بھی دیتے ہی اور پھر بھول جاتے ہیں ہم اُس راہ پہ بھی چلتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی،
بقو ل علامہ اقبال
’’ اگر راستہ خوبصورت ہے تو پتا کرو کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہے تو راستے کی پروا مت کرو۔‘‘
پر ہم یہ کہاں سوچے ہیں؟؟؟؟ اگر ہم ایسی باتوں پہ عمل کرنے لگ جائیں تو کیا زندگی آسان نا ہو جائے!!
پر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے غلام ہیں، ہر وہ کام کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کا کسی نا کسی کو نقصان ضرور ہوتا ہے۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہمارے اندر بھی ایک جج براجمان ہے ، جونا بکتا ہے نا جھکتا ہے ، عین ٹائم پہ آپ کے دماغ میں الارم بجے گا اور ٹک ٹک ٹک ،،آپ کو بلایا جائے گا آپ کو مجرم بنا کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ٖ ثابت کیا جائے گا ’’غلط کیا ،غلط کیا‘‘ پھر فیصلہ بھی ہوجائے گا اُسی وقت!!! سز ا ملنے میں دیر لگے گی ، تب تک آپ خود کو بہلائیں گے ، تسلی دیں گے کہ نہیں سب ٹھیک ہے، آپ کے اندر بے سکونی رہے گی ہلچل رہے گی، پھر ایک دن کچھ ویسا ہی سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا جو آپ نے کسی اور کے ساتھ کیا ہو گا ، پھر جا کے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نےغلط کیا تھا ۔
پر یہ جو سب میں نے لکھا یہ سب اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ضمیر ابھی زندہ ہوں ، جو لوگ ٖغلطی، گناہ، اور دھوکے دے کر اپنے دل کو کالا کر دیتے ہیں انہیں ایسا کوئی احساس نہیں کیوں کہ اُن کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے اُن کے اندر ایک شیطان براجمان ہو جاتا ہے جو ہر فیصلہ ان ہی کہ حق میں کرتا ہے اور وہ بڑے فخر سے سر بلند کرکے کہتے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں ، نا صرف یہ بلکہ وہ آپ کو الزام دیں گے آپ پہ چڑھائی کریں گے کہ آپ غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک ہی بار چوٹ لگتی ہے جو ان کی روح کو اندر تک گھائل کر دیتی ہے، پھر جب وہ اپنے آپ سے ملتے ہیں تب اُن کو احساس ہوتا ہے۔پر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
ہم دنیا میں آئے ہیں ایک دن جانا بھی ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اُسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔
مگر اس سب کے باوجود ہم وہ بھی کرتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے ، ہم وہ کام بھی کرتے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہو تا ، ہم جانے انجانے میں لوگوں کو دکھ بھی دیتے ہی اور پھر بھول جاتے ہیں ہم اُس راہ پہ بھی چلتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی،
بقو ل علامہ اقبال
’’ اگر راستہ خوبصورت ہے تو پتا کرو کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہے تو راستے کی پروا مت کرو۔‘‘
پر ہم یہ کہاں سوچے ہیں؟؟؟؟ اگر ہم ایسی باتوں پہ عمل کرنے لگ جائیں تو کیا زندگی آسان نا ہو جائے!!
پر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے غلام ہیں، ہر وہ کام کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کا کسی نا کسی کو نقصان ضرور ہوتا ہے۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہمارے اندر بھی ایک جج براجمان ہے ، جونا بکتا ہے نا جھکتا ہے ، عین ٹائم پہ آپ کے دماغ میں الارم بجے گا اور ٹک ٹک ٹک ،،آپ کو بلایا جائے گا آپ کو مجرم بنا کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ٖ ثابت کیا جائے گا ’’غلط کیا ،غلط کیا‘‘ پھر فیصلہ بھی ہوجائے گا اُسی وقت!!! سز ا ملنے میں دیر لگے گی ، تب تک آپ خود کو بہلائیں گے ، تسلی دیں گے کہ نہیں سب ٹھیک ہے، آپ کے اندر بے سکونی رہے گی ہلچل رہے گی، پھر ایک دن کچھ ویسا ہی سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا جو آپ نے کسی اور کے ساتھ کیا ہو گا ، پھر جا کے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نےغلط کیا تھا ۔
پر یہ جو سب میں نے لکھا یہ سب اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ضمیر ابھی زندہ ہوں ، جو لوگ ٖغلطی، گناہ، اور دھوکے دے کر اپنے دل کو کالا کر دیتے ہیں انہیں ایسا کوئی احساس نہیں کیوں کہ اُن کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے اُن کے اندر ایک شیطان براجمان ہو جاتا ہے جو ہر فیصلہ ان ہی کہ حق میں کرتا ہے اور وہ بڑے فخر سے سر بلند کرکے کہتے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں ، نا صرف یہ بلکہ وہ آپ کو الزام دیں گے آپ پہ چڑھائی کریں گے کہ آپ غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک ہی بار چوٹ لگتی ہے جو ان کی روح کو اندر تک گھائل کر دیتی ہے، پھر جب وہ اپنے آپ سے ملتے ہیں تب اُن کو احساس ہوتا ہے۔پر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
ہم دنیا میں آئے ہیں ایک دن جانا بھی ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اُسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔
با با آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ؟شہر کا رخ بھی کرتے ہیں؟
میں نے آنکھیں موندے بظاہر تھکن سے چُور نظر آنے والے بابا سے پوچھا ۔
’’ ہماری کوئی ایک جگہ مقرر نہیں ہوتی ۔ اور ہمیں خؤد بھی یاد نہیں رہتا کل کہاں تھے ور آج کہاں ہیں‘‘
ان کی آنکھوں نے سرخ ڈوروں نے میرے اندر کچھ خوف سا جگا دیا۔
’’ ہم جاہ جاہ پھرتے ، نگر نگر گھومتے اور پھر چرسا بھر زمین کی چادر اوڑھے سو رہتے ہیں۔ سکون کہیں بھی نہیں ہوتا ۔ بس اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس تک پہنچنے کے لئے اندر دھیان لگانا پڑتا ہے۔ یہ جو شخص مٹی کی چادر اوڑھے پڑا ہے نا ۔ برسوں پہلے ایک عام شخص تھا ۔ روٹی ، کپڑا، مکان کے چکر میں ذلیل و خوار ہونے والا شخص ۔ یہاں آیا تو اپنی پریشانیؤن کا حل سو چنے کو اسی پہاڑ پر بیٹھا۔ اور اسے ان کاحل مل گیا اس نے اپنے اندر دھیان لگایا ۔ اور فطرت کی گہرائی میں بھکرے سکون نے اسے اندر کے دھیان میں پکا کر دیا ۔ اور پھر اس نے اس دھیان کو ٹوٹنے نا دیا ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا بس کچھ بس یہیں کا ہو رہا ۔۔۔۔۔ اب تک یہیں ہے‘‘
لیکن کیا ، دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے یوں گھبرا کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کے نام کی مالا جپتے رہنا بہت آسان نہیں‘‘
’’کم فہم انسان ہے نا تو عشق کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ عشق کی دیوانگی کو کیا سمجھے گا، عشق پہ کسی کا زور ہوتا تو دنیا میں کوئی دیوانہ نا ہوتا، تو عشق کو آسان سمجھتا ہے۔ ایک بھی منزل عبو کر کے دکھا تو تجھے جانوں۔ ہر منزل پہ انگنت کشٹ ہیں اور ساری بات نصیب کی ہے۔ کسی کے نصیب میں عشق ہے اور کسی کے نہیں ‘‘۔
میں بابا کے لہجے میں اپنے لئے کرختگی دیکھ کر سہم سا گیا۔
یوں لگا جیسے میں نے عشق کی تو ہین کر کے بابا کا دل دکھایا ہے۔
’’ بابا عشق کا یقین کیسے آتا ہے۔‘‘
’’یقین، میں تیری کج فہمی پہ حیران ہوں کیا تو نے زندگی میں کبھی عشق نہیں کیا۔ کسی بندے سے بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ جو عشق کی پہلے منزل ہے، تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ عشق تو خود اپنا یقین ہے۔ جب یہ ہو جائے تو اس سے بڑا یقین اور کوئی نہیں رہتا‘‘۔
مجھے اپنے گئے گزرے عشق پہ حقارت ہونے لگی وہ جوہمیشہ بے یقینی کا شکار رہا۔ عین وصل میں ہجر کا ڈر۔۔۔ بہار کی دہلیز پہ خزاں کے خشک پتوں کا اُدھم، مجھے یوں لگا جیسے میرے سامنے ایک ٹھنڈے پانی کا جھڑنا ہے اور میں اس کے قریب پیاس سے مر رہا ہوں۔ میں سوچنے لگا۔
محبت اسقدر بے سکونی اور بے یقینی کیوں دیتی ہے۔ پھر بابا سے نظریں ملانے کی بجائے سورج کی زائل ہونے والی توانائیوں کی آسمان پر بے بسی کا نظارہ کرنے لگا جیسے کوئی اپنے زوال کے تھکے ہارے سفر کو مائل ہو۔
میں بابا سے اور بھی باتیں کرنا چاہتا تھالیکن عشق کے بارے میں اپنی ناسمجھی اور بے خبری کی وجہ سے ڈرتے ہوئے کوئی اور سوال نا کر سکا ۔ میرا دھیان عشق کے سبق سے ٹوٹا نا تھا ۔ کب سے بابا کو خاموشی سے ذکرِ الہٰی کرتے دیکھ رہا تھا۔ بابا نے بہت وقت بیت جانے کے بعد آنکھیں کھولیں اور بولے۔
’’ تو سمجھ رہا ہے کہ تیرا دھیان ٹوٹا نہیں ، تو سمجھ لے کہ تیرا دھیان کبھی عشق سے جڑا ہی نہیں۔ کچی مٹی پہ چھڑکاؤ کرو تو ہرجاہ بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی ہے۔ اس خوشبو کے لئے مٹی ہزاروں سال سے چلچلاتی دھوپ میں جلتی بلتی چلی آ رہی ہے۔ وہ اگر دھوپ میں نا جلتی تو پانی چھڑکا ؤ اس کے وجود میں مہک کے بھانبھڑ نا مچاتا۔ من کو عشق کی خوشبو دینے کے لیے تن کو دکھوں اور آزمائشوں کی دھوپ میں جلانا پڑتا ہے۔ تو دنیا کے مقام مرتبے کا دھنی ، تیرا گزر عاشق کے بے سروسامان راستے سے کہاں؟؟
دیکھ بچے ہر روح تلاش کے سفر میں ہے۔ حقیقت کے باطن میں چھپے اسرار کی تلاش ، محدود سے لا محدود کے رستے کی تلاش، منظر جو سامنے ہے بڑا دلکش ہے، دلفریب ہے لیکن منظر جو پوشیدہ ہے وہی اصل ہے۔ منظر سے دھیان ہٹا کر پسِ منظر کو کریدنا اتنا آسان نہیں جتنا تو سمجھتا ہے۔ ظاہر کے بدن کو چیر کر باطن میں اترنا اتنا سہل نہیں جتنا تیرے گمان میں ہے۔ ٕمحدود کت سکون کو چھوڑ کر لامحدود کے اضطراب میں قدم رکھنا اتنا آسان ہوتا تو سب جستجو کرنے والے بامراد ہو جاتے۔ محدود سے آگے دیکھنے کے لیے وہ نظر چاہیے جو عشق ہی دے سکتا ہے۔ عشق ہی وہ طاقت ہے جو ظاہر کو چیر کر باطن میں اتر جانے کو اسلوب سکھاتی ہے۔ ہاں واحد نام عشق کا قائم ۔۔ باقی ہر اک شے فانی۔‘‘
میں نے آنکھیں موندے بظاہر تھکن سے چُور نظر آنے والے بابا سے پوچھا ۔
’’ ہماری کوئی ایک جگہ مقرر نہیں ہوتی ۔ اور ہمیں خؤد بھی یاد نہیں رہتا کل کہاں تھے ور آج کہاں ہیں‘‘
ان کی آنکھوں نے سرخ ڈوروں نے میرے اندر کچھ خوف سا جگا دیا۔
’’ ہم جاہ جاہ پھرتے ، نگر نگر گھومتے اور پھر چرسا بھر زمین کی چادر اوڑھے سو رہتے ہیں۔ سکون کہیں بھی نہیں ہوتا ۔ بس اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس تک پہنچنے کے لئے اندر دھیان لگانا پڑتا ہے۔ یہ جو شخص مٹی کی چادر اوڑھے پڑا ہے نا ۔ برسوں پہلے ایک عام شخص تھا ۔ روٹی ، کپڑا، مکان کے چکر میں ذلیل و خوار ہونے والا شخص ۔ یہاں آیا تو اپنی پریشانیؤن کا حل سو چنے کو اسی پہاڑ پر بیٹھا۔ اور اسے ان کاحل مل گیا اس نے اپنے اندر دھیان لگایا ۔ اور فطرت کی گہرائی میں بھکرے سکون نے اسے اندر کے دھیان میں پکا کر دیا ۔ اور پھر اس نے اس دھیان کو ٹوٹنے نا دیا ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا بس کچھ بس یہیں کا ہو رہا ۔۔۔۔۔ اب تک یہیں ہے‘‘
لیکن کیا ، دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے یوں گھبرا کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کے نام کی مالا جپتے رہنا بہت آسان نہیں‘‘
’’کم فہم انسان ہے نا تو عشق کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ عشق کی دیوانگی کو کیا سمجھے گا، عشق پہ کسی کا زور ہوتا تو دنیا میں کوئی دیوانہ نا ہوتا، تو عشق کو آسان سمجھتا ہے۔ ایک بھی منزل عبو کر کے دکھا تو تجھے جانوں۔ ہر منزل پہ انگنت کشٹ ہیں اور ساری بات نصیب کی ہے۔ کسی کے نصیب میں عشق ہے اور کسی کے نہیں ‘‘۔
میں بابا کے لہجے میں اپنے لئے کرختگی دیکھ کر سہم سا گیا۔
یوں لگا جیسے میں نے عشق کی تو ہین کر کے بابا کا دل دکھایا ہے۔
’’ بابا عشق کا یقین کیسے آتا ہے۔‘‘
’’یقین، میں تیری کج فہمی پہ حیران ہوں کیا تو نے زندگی میں کبھی عشق نہیں کیا۔ کسی بندے سے بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ جو عشق کی پہلے منزل ہے، تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ عشق تو خود اپنا یقین ہے۔ جب یہ ہو جائے تو اس سے بڑا یقین اور کوئی نہیں رہتا‘‘۔
مجھے اپنے گئے گزرے عشق پہ حقارت ہونے لگی وہ جوہمیشہ بے یقینی کا شکار رہا۔ عین وصل میں ہجر کا ڈر۔۔۔ بہار کی دہلیز پہ خزاں کے خشک پتوں کا اُدھم، مجھے یوں لگا جیسے میرے سامنے ایک ٹھنڈے پانی کا جھڑنا ہے اور میں اس کے قریب پیاس سے مر رہا ہوں۔ میں سوچنے لگا۔
محبت اسقدر بے سکونی اور بے یقینی کیوں دیتی ہے۔ پھر بابا سے نظریں ملانے کی بجائے سورج کی زائل ہونے والی توانائیوں کی آسمان پر بے بسی کا نظارہ کرنے لگا جیسے کوئی اپنے زوال کے تھکے ہارے سفر کو مائل ہو۔
میں بابا سے اور بھی باتیں کرنا چاہتا تھالیکن عشق کے بارے میں اپنی ناسمجھی اور بے خبری کی وجہ سے ڈرتے ہوئے کوئی اور سوال نا کر سکا ۔ میرا دھیان عشق کے سبق سے ٹوٹا نا تھا ۔ کب سے بابا کو خاموشی سے ذکرِ الہٰی کرتے دیکھ رہا تھا۔ بابا نے بہت وقت بیت جانے کے بعد آنکھیں کھولیں اور بولے۔
’’ تو سمجھ رہا ہے کہ تیرا دھیان ٹوٹا نہیں ، تو سمجھ لے کہ تیرا دھیان کبھی عشق سے جڑا ہی نہیں۔ کچی مٹی پہ چھڑکاؤ کرو تو ہرجاہ بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی ہے۔ اس خوشبو کے لئے مٹی ہزاروں سال سے چلچلاتی دھوپ میں جلتی بلتی چلی آ رہی ہے۔ وہ اگر دھوپ میں نا جلتی تو پانی چھڑکا ؤ اس کے وجود میں مہک کے بھانبھڑ نا مچاتا۔ من کو عشق کی خوشبو دینے کے لیے تن کو دکھوں اور آزمائشوں کی دھوپ میں جلانا پڑتا ہے۔ تو دنیا کے مقام مرتبے کا دھنی ، تیرا گزر عاشق کے بے سروسامان راستے سے کہاں؟؟
دیکھ بچے ہر روح تلاش کے سفر میں ہے۔ حقیقت کے باطن میں چھپے اسرار کی تلاش ، محدود سے لا محدود کے رستے کی تلاش، منظر جو سامنے ہے بڑا دلکش ہے، دلفریب ہے لیکن منظر جو پوشیدہ ہے وہی اصل ہے۔ منظر سے دھیان ہٹا کر پسِ منظر کو کریدنا اتنا آسان نہیں جتنا تو سمجھتا ہے۔ ظاہر کے بدن کو چیر کر باطن میں اترنا اتنا سہل نہیں جتنا تیرے گمان میں ہے۔ ٕمحدود کت سکون کو چھوڑ کر لامحدود کے اضطراب میں قدم رکھنا اتنا آسان ہوتا تو سب جستجو کرنے والے بامراد ہو جاتے۔ محدود سے آگے دیکھنے کے لیے وہ نظر چاہیے جو عشق ہی دے سکتا ہے۔ عشق ہی وہ طاقت ہے جو ظاہر کو چیر کر باطن میں اتر جانے کو اسلوب سکھاتی ہے۔ ہاں واحد نام عشق کا قائم ۔۔ باقی ہر اک شے فانی۔‘‘
" تمہیں بھی اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرنا ہو گی سیمی ،،،،، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اور کوئی صورت نہیں ہوتی !"
وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔
میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ،پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی ،،،،، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے ، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے ، محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے ، جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے ، کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے ۔
شکست و ریخت، بد بختی و سوختہ سامانی ۔
آج تک سوسائٹی جرائم کی بیخ کنی پر اپنی تمام قوت استعمال کرتی رہی ھے ، اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ کتنے گھروں میں کتنے مسلکوں میں سارا نقص ہی محبت سے پیدا ہوتا ھے ، سوسائٹی کا بنیادی تضاد ہی یہ ھے کہ ابھی تک وہ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ھے حالانکہ وہ اس کے ہاتھوں توفیق بھر تکلیف اٹھا چکی ھے ، جب تک یہ ن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہو جاتا اور اس کے ٹریفک رولز مقرر نہیں ہوتے ، تب تک شانتی ممکن نہیں کیونکہ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ھے کہیں ٹکتا نہیں اور معاشرے کو کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ھے ۔
وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔
میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ،پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی ،،،،، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے ، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے ، محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے ، جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے ، کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے ۔
شکست و ریخت، بد بختی و سوختہ سامانی ۔
آج تک سوسائٹی جرائم کی بیخ کنی پر اپنی تمام قوت استعمال کرتی رہی ھے ، اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ کتنے گھروں میں کتنے مسلکوں میں سارا نقص ہی محبت سے پیدا ہوتا ھے ، سوسائٹی کا بنیادی تضاد ہی یہ ھے کہ ابھی تک وہ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ھے حالانکہ وہ اس کے ہاتھوں توفیق بھر تکلیف اٹھا چکی ھے ، جب تک یہ ن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہو جاتا اور اس کے ٹریفک رولز مقرر نہیں ہوتے ، تب تک شانتی ممکن نہیں کیونکہ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ھے کہیں ٹکتا نہیں اور معاشرے کو کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ھے ۔
وہ کہتا تھا۔
جب میری بیوی مجھ پہ الزام دھرتی اور وہ اکثر مجھ پہ الزام دھرتی تھی، اس وقت میرا جی چاہتا کہ اسے کہوں بی بی میرا قصور نہیں ہےعین اُس وقت قدرت اللہ شھاب میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیتا اور اور کہتا وہ جو کہتی ہے مان تو کہہ ہان جی ۔ جھگڑا نا کرو۔ مان لینے میں برا سُکھ ہے۔
میں بڑا عفیل آدمی ہوں اور میرا غصہ سُدھ بُدھ مار دینے والا ہے۔ا ِک جھکڑ چلتا ہے ٹہنی ٹہنی پتا پتا گزرتا ہے اور پھر وہی گرد۔
جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ اس جھکڑ کو گزر جانے دو اندر رُکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا۔ غصہ کھانے ی نہیں پینے کی چیز ہے۔
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے کوشش بار بار کو شش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ضد نا کرو اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔
جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا نا ہار جاؤ۔ ہار جاؤ ۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے۔
جب بھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اُسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ، شاید اللہ کو تمھاری یہی ادا پسند آ جائے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں کام آ سکتا ہے۔ کتنی آسان باتیں ہیں اگر ہم سمجھیں تو عمل کرنا بھی آسان ہوجائے گا:)
جب میری بیوی مجھ پہ الزام دھرتی اور وہ اکثر مجھ پہ الزام دھرتی تھی، اس وقت میرا جی چاہتا کہ اسے کہوں بی بی میرا قصور نہیں ہےعین اُس وقت قدرت اللہ شھاب میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیتا اور اور کہتا وہ جو کہتی ہے مان تو کہہ ہان جی ۔ جھگڑا نا کرو۔ مان لینے میں برا سُکھ ہے۔
میں بڑا عفیل آدمی ہوں اور میرا غصہ سُدھ بُدھ مار دینے والا ہے۔ا ِک جھکڑ چلتا ہے ٹہنی ٹہنی پتا پتا گزرتا ہے اور پھر وہی گرد۔
جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ اس جھکڑ کو گزر جانے دو اندر رُکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا۔ غصہ کھانے ی نہیں پینے کی چیز ہے۔
جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے کوشش بار بار کو شش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ضد نا کرو اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔
جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا نا ہار جاؤ۔ ہار جاؤ ۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے۔
جب بھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اُسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ، شاید اللہ کو تمھاری یہی ادا پسند آ جائے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں کام آ سکتا ہے۔ کتنی آسان باتیں ہیں اگر ہم سمجھیں تو عمل کرنا بھی آسان ہوجائے گا:)
کچھ عرصہ پہلے میں نے اردو ویب کی لائبریری کے لیے ایک کتاب ’حسنِ خیال‘ کے چند صفحات کو یونی کوڈ میں لکھا تھا۔ ان میں سے مجھے جو پسند اور سمجھ آیا سوچا اُسے الگ سے یہاں پوسٹ کروں۔
’’حضرت بہلول رضی اللہ عنہ نے ایک درویش سے پوچھا کہ تمھاری زندگی کیسی گزرتی ہے؟
درویش نے کہا: تمام عالم میرے اشاروں پہ چل رہا ہے،
بہلول نے اس اجما ل کی تفصیل پوچھی ،
درویش نے جواب دیا: یہ سُن لو کہ تمام کام اُسی کے حکم سے ہوتے ہیں ۔
توخدا کی مرضی اور بندے کی خواہش ایک ہی چیز ہے۔ اس لئے میں وہ چاہتا ہوں جو ہو رہا ہے۔ اور جو ہوتا ہے یعنی میں نے اپنی خواہش کو رضائے الہٰی میں فنا کر دیا ہے۔ اس لئے زمین آسمان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے میری مرضی کے موافق ہو رہاہے۔
اس لئے میں وہ ہوں کہ ،
دریا اور سیلاب میری مرضی سے چلتے ہیں،
ستارے میرے کہنےکے مطابق گردش کرتے ہیں،
میری مرضی کے بغیر ایک پتا درخت سے نہیں گرتا،
میری مرضی کے بغیر کو ئی موت واقع نہیں ہوتی،
میری مرضی کے بغیر زمین سے آسمان تک ایک بھی اگ جنبش نہیں کرسکتی‘‘۔۔۔
’’حضرت بہلول رضی اللہ عنہ نے ایک درویش سے پوچھا کہ تمھاری زندگی کیسی گزرتی ہے؟
درویش نے کہا: تمام عالم میرے اشاروں پہ چل رہا ہے،
بہلول نے اس اجما ل کی تفصیل پوچھی ،
درویش نے جواب دیا: یہ سُن لو کہ تمام کام اُسی کے حکم سے ہوتے ہیں ۔
توخدا کی مرضی اور بندے کی خواہش ایک ہی چیز ہے۔ اس لئے میں وہ چاہتا ہوں جو ہو رہا ہے۔ اور جو ہوتا ہے یعنی میں نے اپنی خواہش کو رضائے الہٰی میں فنا کر دیا ہے۔ اس لئے زمین آسمان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے میری مرضی کے موافق ہو رہاہے۔
اس لئے میں وہ ہوں کہ ،
دریا اور سیلاب میری مرضی سے چلتے ہیں،
ستارے میرے کہنےکے مطابق گردش کرتے ہیں،
میری مرضی کے بغیر ایک پتا درخت سے نہیں گرتا،
میری مرضی کے بغیر کو ئی موت واقع نہیں ہوتی،
میری مرضی کے بغیر زمین سے آسمان تک ایک بھی اگ جنبش نہیں کرسکتی‘‘۔۔۔
میں پچھلے تین دن سے بخا ر میں مبتلا ہوں۔ ایسا بھی نہیں بخار مجھے مسلسل رہا ہے۔ کافی دنوں سے گلا خراب ہو رہا تھا اور تین دن پہلے رات کو ذرا کھانسی کا دورہ پڑا اور صبح بخار۔ دوپہر کو ٹھیک ہوگئی تھی رات کو پھر بخار ہوگیا، اگلے دن بالکل تھی یہ بھی نہیں تھا کہ بخار کے بعد کمزوری محسوس ہو رہی ہو۔ مگر اسی شام پھر بخار ہوگیا۔ اور کل پھر ٹھیک ہو گئی تھی بس یہ سوچا تھا کہ اب ذرا بیڈ ریسٹ کو لوں تاکہ مکمل طور پہ ٹھیک ہو جاؤں پھر بستر کی جان چھوڑ دو ں گی۔
آج رات پھر کھانسی کو دورہ پڑا تھا 2 بجے تھے تب اماں بھی اٹھی تھیں میں نے اماں کو کہا مجھے بھی پانی لا دیں ۔ انہوں نے پانی لا دیا اور میں کھانسی کا شربت پیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ کبھی نیند آجاتی کبھی آنکھ کھل جاتی۔ اسی اثناٰ میں وقت دیکھا تو 5:27 ہو گئے تھے۔ سوچا اماں کو جگا دوں ناشتہ بنا لیں یہی سوچتے پھر سے آنکھ لگ گئی۔ 6 بجے اماں نے لائٹ آن کی تو میں بھی جاگ گئی۔
یہ سب تو میں نے مختصراً حال بتا یا ہے آ پ کو۔ اب آگے چلیے مجھے جو یہ لگ رہا تھا میں ٹھیک ہو گئی ہوں، تو میں نے سوچا نیند تو آنہیں رہی کیوں نا ذرا اماں کے ساتھ جا کے ہا تھ بٹا لیا جائے ۔ ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہوگئی تھی آرام کرکر کے لچک ہی ختم ہو گئی تھی۔ میں اٹھنے لگی تو میری گردن میں بل پڑ گیا ۔ اور میں اٹھ کے بیٹھی تو مجھے لگا کہ میرے اندر بہت سی زہریلی گیسیں جمع ہو گئی ہیں سانس لینا مشکل ہو گیا ۔ اس سے پہلے کہ قے آجاتی میں آہستہ سے کھڑی ہوئی اور چپل پہنی۔ دروازہ کھولا اور میرے ذہن کی بتیاں بجھنے لگ گئیں۔ اس سے پہلے کی سب ہی بتیاں بجھ جاتیں میں 6 قدم کا فاصلہ طے کیا اور واقع اندھیرا چھا گیا اور بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہو ئے اور اپنے حواسوں کو بحال کرنے کی ناکام کوشش میں ، میں گر پڑی اور گرتے ہوئے آخری لفظ جو میرے منہ سے نکلا"امی"
امی کچن میں تھیں کہنے لگی کیا ہوا ؟
میں نے جواب نہیں دیا تو خود اٹھ کے آئیں مجھے گرا ہو ا دیکھ کے اٹھا یا ، کہنے لگی ایسے کیوں چلی آئی۔ خیر کوئی 1 منٹ کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو میں پانی کے نل کے قریب گئی۔ امی نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نےاشارے سے کہا قے آرہی ہے۔ اگلے ایک منٹ میں اسی کیفیت میں رہی کہ جیسے ابھی قے آجائے گی مگر میرے معدے میں پانی کے ایک بوند میں بھی ہلچل نہیں ہوئی۔
اس لئے کہ میں نے رات کو کچھ کھا یا ہی نہیں تھا۔
اگلے لمحے میرا سارا جسم پسینےسے ایسے شرابور تھا جیسے جون جولائی میں بجلی کے چلے جانے پہ ہوتا ہے اور اس سے اگلہ لمحہ اِس سے بھی حیران کن تھا میں کھڑ ی ہوئی تو ایسے ٹھنڈی پڑ گئی جیسے برف کی سِل میں لگا دیا ہو یہاں تک کے میرے کانوں سے سردی نکل رہی تھی۔ جو بھی تھا بہت عجیب تھا۔ میں نے کُلی کی اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی کمرے میں اور بستر پہ لیٹ گئی۔
اب اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوا جارہا۔ دھوپ میں بیٹھتی ہوں تو گرمی لگتی چھاؤں میں بیٹھتی ہوں تو سردی لگتی ہے۔ سر ابھی بھی بہت بھاری ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں ابھی میں نے اتوار والے دن ہی دوست کو کہا تھا یار بخار ہی نہیں ہوتا بندہ ذرا خدمت ہی کروا لیتا ہے۔ !!!!!!
آج رات پھر کھانسی کو دورہ پڑا تھا 2 بجے تھے تب اماں بھی اٹھی تھیں میں نے اماں کو کہا مجھے بھی پانی لا دیں ۔ انہوں نے پانی لا دیا اور میں کھانسی کا شربت پیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ کبھی نیند آجاتی کبھی آنکھ کھل جاتی۔ اسی اثناٰ میں وقت دیکھا تو 5:27 ہو گئے تھے۔ سوچا اماں کو جگا دوں ناشتہ بنا لیں یہی سوچتے پھر سے آنکھ لگ گئی۔ 6 بجے اماں نے لائٹ آن کی تو میں بھی جاگ گئی۔
یہ سب تو میں نے مختصراً حال بتا یا ہے آ پ کو۔ اب آگے چلیے مجھے جو یہ لگ رہا تھا میں ٹھیک ہو گئی ہوں، تو میں نے سوچا نیند تو آنہیں رہی کیوں نا ذرا اماں کے ساتھ جا کے ہا تھ بٹا لیا جائے ۔ ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہوگئی تھی آرام کرکر کے لچک ہی ختم ہو گئی تھی۔ میں اٹھنے لگی تو میری گردن میں بل پڑ گیا ۔ اور میں اٹھ کے بیٹھی تو مجھے لگا کہ میرے اندر بہت سی زہریلی گیسیں جمع ہو گئی ہیں سانس لینا مشکل ہو گیا ۔ اس سے پہلے کہ قے آجاتی میں آہستہ سے کھڑی ہوئی اور چپل پہنی۔ دروازہ کھولا اور میرے ذہن کی بتیاں بجھنے لگ گئیں۔ اس سے پہلے کی سب ہی بتیاں بجھ جاتیں میں 6 قدم کا فاصلہ طے کیا اور واقع اندھیرا چھا گیا اور بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہو ئے اور اپنے حواسوں کو بحال کرنے کی ناکام کوشش میں ، میں گر پڑی اور گرتے ہوئے آخری لفظ جو میرے منہ سے نکلا"امی"
امی کچن میں تھیں کہنے لگی کیا ہوا ؟
میں نے جواب نہیں دیا تو خود اٹھ کے آئیں مجھے گرا ہو ا دیکھ کے اٹھا یا ، کہنے لگی ایسے کیوں چلی آئی۔ خیر کوئی 1 منٹ کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو میں پانی کے نل کے قریب گئی۔ امی نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نےاشارے سے کہا قے آرہی ہے۔ اگلے ایک منٹ میں اسی کیفیت میں رہی کہ جیسے ابھی قے آجائے گی مگر میرے معدے میں پانی کے ایک بوند میں بھی ہلچل نہیں ہوئی۔
اس لئے کہ میں نے رات کو کچھ کھا یا ہی نہیں تھا۔
اگلے لمحے میرا سارا جسم پسینےسے ایسے شرابور تھا جیسے جون جولائی میں بجلی کے چلے جانے پہ ہوتا ہے اور اس سے اگلہ لمحہ اِس سے بھی حیران کن تھا میں کھڑ ی ہوئی تو ایسے ٹھنڈی پڑ گئی جیسے برف کی سِل میں لگا دیا ہو یہاں تک کے میرے کانوں سے سردی نکل رہی تھی۔ جو بھی تھا بہت عجیب تھا۔ میں نے کُلی کی اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی کمرے میں اور بستر پہ لیٹ گئی۔
اب اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوا جارہا۔ دھوپ میں بیٹھتی ہوں تو گرمی لگتی چھاؤں میں بیٹھتی ہوں تو سردی لگتی ہے۔ سر ابھی بھی بہت بھاری ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں ابھی میں نے اتوار والے دن ہی دوست کو کہا تھا یار بخار ہی نہیں ہوتا بندہ ذرا خدمت ہی کروا لیتا ہے۔ !!!!!!
جب میں میٹرک میں تھی تو ہم اکثر اردو کے پیراگراف کا انگلش میں ترجمعہ کیا کرتے تھے ، ان میں ایک پیراگراف کی لائن مجھے بہت اچھی لگتی تھی جو مجھے ابھی تک یاد ہے،"زندگی کے نشیب و فراز میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب انسان نااُمید ہوجاتا ہے ، مگر اب جا کے مجھے اس کا مطلب سمجھ میں آیا ہے ۔
ہمارے ملک کے موجودہ حالات جن میں، دہشت گردی ، قتل و غارت ، ڈاکہ زنی ، چوری چکاری، دھوکہ دہی بڑی عام باتیں ہیں ۔ اس کے علاوہ مذہب سے دوری اور لوگوں کے رویے ہمیں مایوس کرنے کو کافی ہیں۔ ان حالات میں جب انسان گھر سے نکلتا ہےتو اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ زندہ واپس بھی آئے گا کہ نہیں ، کسی بم دھماکے کی نذرہو جائے گا ! یا راستے میں لوٹ لیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سب انسا ن کو مایوس اور ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، ایسے میں کس طرح نوجوان نسل کی میں کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی ۔ غریب لوگ اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ مہنگائی نے سب کو متاثر کیا ہے۔
لیکن پھر بھی امید کے سہارے ہی دنیا قائم ہے ۔ کل میں ایک ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی تو مجھے ایک بات بہت اچھی لگی، . ضروری یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں خوش رہنے کے لیے کتنی آسائشیں درکار ہیں بلکہ ضروری یہ ہوتا ہے ہم کتنی آسائشیوں میں خوش رہنا سیکھ جاتے ہیں"! اور اگر ہم اس بات کو یوں لے لیں کہ ضروری یہ نہیں کہ ہم مایوس کتنے ہیں ؟ ہمارے اردگرد مشکلات اور الجھنوں کا گھیر ا کتنا تنگ ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ان مشکلات اور الجھنوں کے جال میں ہم ایک چھوٹی سی خوشی کو کس طر ح تلاش کرسکتے ہیں؟ زندگی شطرنج کی بازی کی طرح ہے۔ جب سارے راستے بند ہوجائیں تو ایک راستہ ضرور کھلا ہوتا ہے اور اُسی ایک راستے کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں اپنے ذہین کی تمام کھڑ کیاں کھلی رکھنی ہو تی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں" ایک در بند سو کھلے" ہم زندگی میں اکثر اس لیے مایوس ہوجاتے ہیں کہ ہم اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں ، اس کی ہر خواھش کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ انسان اگر نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے لگے تو نفس بہت طاقتور ہوجاتا ہے اور انسا ن نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ اور اگر ہم نفس کو پسپا رکھیں اور خو د کو مار دیں تو ہم انسا نیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتے ہیں۔
مگر آج کا انسان! مایوس ہوکر اپنی ہی زندگی کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ مر کر وہ تمام حالات سے نجات پا لے گا۔ میں نے محفل پہ ہی "کھیل ہی کھیل کے ایک دھاگے میری ڈائر ی کا ایک ور ق " پہ بوچھی اپیا کا ایک پیغام پڑھاتھا۔ جو کہ شاید کچھ ایسے تھا
" بے بسی کے دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتیں ہیں ۔ ناکام ی کے بارے میں نا سوچا کرو ایسی سوچیں انسا ن کے ذہن کو کمزور اور لاغر بنو دیتیں ہیں ۔ ناکامی کو نصیب سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے جس کا دائرہ مہکنے میں وسیع اور سمجھنے میں محدود ہوتا ہے"
مگر ان سے باوجود ہم انسا ن ہیں اور ہم مایوس ہوتے ہیں ۔ میں خود بھی مایوسی کا شکار ہوتی ہوں اور مایوسی بھی انتہا کی۔ مگر ایسے میں جب لوگوں کے رویے مجھے مایوس کر دیں اور مجھے دنیا میں کو ئی اپنا نا نظر آئے اور مجھے لگے کہ میں کسی سے اپنی پریشانی نہیں کہہ سکتی ہوں اور مجھے لگے کہ مجھے میری طرح کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ نہر میں بھی اگر پانی اس کی اوقات سے زیادہ ہوجائے تو اس کے کناروں سے باہر آنے لگتا ہے ۔ اسی طرح وہ سب کچھ جب میری آنکھوں سے عیاں ہونے لگے ، تو میں شیشے کے سامنے بیٹھ جاتی ہوں اور اپنی پریشانی اپنی ذات سے کہتی ہوں۔ یا شام کو ڈوبتے سورج کے وقت اکیلی چھت پے جا کے آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتی ہوں ۔ کچھ دیر فرش پہ لکیریں کھنچتی ہوں ۔ پھر دیرتک ان کو خالی ذہین کے ساتھ تکتی رہتی ہوں ، پھر اپنی ذات کا محاصر کرتی ہوں اپنے اعمال کا جائزہ لیتی ہوں۔ ناکامی اور مایوسی کے بادل ذہن میں اندھیرا کر دیتے ہیں اور پھر بارش ہونے لگتی ہے، رب کو پکارتی ہوں ، اس سے گلہ کرتی ہوں شکوہ کرتی ہوں ، پھر خودہی معافی مانگتی ہوں، پھر دعا کرتی ہوں اور دعا میں صرف سکون مانگتی ہوں ۔ یا میں نمازپڑھتے ہوئے ہر سجدے میں روتی ہوں۔پتا نہیں کہاں سے آجاتے ہیں اتنے آنسو! اور حیر ت کی بات ہے میرا ذہین ہلکا ہو جاتا ہے ۔ پر یہ سب میں کسی کے سامنے نہیں کرتی کہ لوگ مجھے پاگل خیال کریں گے۔ شاید آپ میں سے بھی کو ئی شیشے کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے والے کو اکثر پاگل ہی سمجھے۔
مگر سچ تو یہ کہ میں اپنی نفسیات جانتی ہوں اور مجھے پتا ہے کہ میں نے ناعمہ کو کیسے قابو میں رکھنا ہے ، اور کیسے کسی انتہائی قدم سے کسی غلط راستے سے روکنا ہے۔
یہ تو رہی میں ، آپ کیسے اپنے آپ کو قابو کرتے ہیں؟
ہمارے ملک کے موجودہ حالات جن میں، دہشت گردی ، قتل و غارت ، ڈاکہ زنی ، چوری چکاری، دھوکہ دہی بڑی عام باتیں ہیں ۔ اس کے علاوہ مذہب سے دوری اور لوگوں کے رویے ہمیں مایوس کرنے کو کافی ہیں۔ ان حالات میں جب انسان گھر سے نکلتا ہےتو اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ زندہ واپس بھی آئے گا کہ نہیں ، کسی بم دھماکے کی نذرہو جائے گا ! یا راستے میں لوٹ لیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سب انسا ن کو مایوس اور ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، ایسے میں کس طرح نوجوان نسل کی میں کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی ۔ غریب لوگ اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ مہنگائی نے سب کو متاثر کیا ہے۔
لیکن پھر بھی امید کے سہارے ہی دنیا قائم ہے ۔ کل میں ایک ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی تو مجھے ایک بات بہت اچھی لگی، . ضروری یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں خوش رہنے کے لیے کتنی آسائشیں درکار ہیں بلکہ ضروری یہ ہوتا ہے ہم کتنی آسائشیوں میں خوش رہنا سیکھ جاتے ہیں"! اور اگر ہم اس بات کو یوں لے لیں کہ ضروری یہ نہیں کہ ہم مایوس کتنے ہیں ؟ ہمارے اردگرد مشکلات اور الجھنوں کا گھیر ا کتنا تنگ ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ان مشکلات اور الجھنوں کے جال میں ہم ایک چھوٹی سی خوشی کو کس طر ح تلاش کرسکتے ہیں؟ زندگی شطرنج کی بازی کی طرح ہے۔ جب سارے راستے بند ہوجائیں تو ایک راستہ ضرور کھلا ہوتا ہے اور اُسی ایک راستے کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں اپنے ذہین کی تمام کھڑ کیاں کھلی رکھنی ہو تی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں" ایک در بند سو کھلے" ہم زندگی میں اکثر اس لیے مایوس ہوجاتے ہیں کہ ہم اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں ، اس کی ہر خواھش کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ انسان اگر نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے لگے تو نفس بہت طاقتور ہوجاتا ہے اور انسا ن نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ اور اگر ہم نفس کو پسپا رکھیں اور خو د کو مار دیں تو ہم انسا نیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتے ہیں۔
مگر آج کا انسان! مایوس ہوکر اپنی ہی زندگی کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ مر کر وہ تمام حالات سے نجات پا لے گا۔ میں نے محفل پہ ہی "کھیل ہی کھیل کے ایک دھاگے میری ڈائر ی کا ایک ور ق " پہ بوچھی اپیا کا ایک پیغام پڑھاتھا۔ جو کہ شاید کچھ ایسے تھا
" بے بسی کے دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتیں ہیں ۔ ناکام ی کے بارے میں نا سوچا کرو ایسی سوچیں انسا ن کے ذہن کو کمزور اور لاغر بنو دیتیں ہیں ۔ ناکامی کو نصیب سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے جس کا دائرہ مہکنے میں وسیع اور سمجھنے میں محدود ہوتا ہے"
مگر ان سے باوجود ہم انسا ن ہیں اور ہم مایوس ہوتے ہیں ۔ میں خود بھی مایوسی کا شکار ہوتی ہوں اور مایوسی بھی انتہا کی۔ مگر ایسے میں جب لوگوں کے رویے مجھے مایوس کر دیں اور مجھے دنیا میں کو ئی اپنا نا نظر آئے اور مجھے لگے کہ میں کسی سے اپنی پریشانی نہیں کہہ سکتی ہوں اور مجھے لگے کہ مجھے میری طرح کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ نہر میں بھی اگر پانی اس کی اوقات سے زیادہ ہوجائے تو اس کے کناروں سے باہر آنے لگتا ہے ۔ اسی طرح وہ سب کچھ جب میری آنکھوں سے عیاں ہونے لگے ، تو میں شیشے کے سامنے بیٹھ جاتی ہوں اور اپنی پریشانی اپنی ذات سے کہتی ہوں۔ یا شام کو ڈوبتے سورج کے وقت اکیلی چھت پے جا کے آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتی ہوں ۔ کچھ دیر فرش پہ لکیریں کھنچتی ہوں ۔ پھر دیرتک ان کو خالی ذہین کے ساتھ تکتی رہتی ہوں ، پھر اپنی ذات کا محاصر کرتی ہوں اپنے اعمال کا جائزہ لیتی ہوں۔ ناکامی اور مایوسی کے بادل ذہن میں اندھیرا کر دیتے ہیں اور پھر بارش ہونے لگتی ہے، رب کو پکارتی ہوں ، اس سے گلہ کرتی ہوں شکوہ کرتی ہوں ، پھر خودہی معافی مانگتی ہوں، پھر دعا کرتی ہوں اور دعا میں صرف سکون مانگتی ہوں ۔ یا میں نمازپڑھتے ہوئے ہر سجدے میں روتی ہوں۔پتا نہیں کہاں سے آجاتے ہیں اتنے آنسو! اور حیر ت کی بات ہے میرا ذہین ہلکا ہو جاتا ہے ۔ پر یہ سب میں کسی کے سامنے نہیں کرتی کہ لوگ مجھے پاگل خیال کریں گے۔ شاید آپ میں سے بھی کو ئی شیشے کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے والے کو اکثر پاگل ہی سمجھے۔
مگر سچ تو یہ کہ میں اپنی نفسیات جانتی ہوں اور مجھے پتا ہے کہ میں نے ناعمہ کو کیسے قابو میں رکھنا ہے ، اور کیسے کسی انتہائی قدم سے کسی غلط راستے سے روکنا ہے۔
یہ تو رہی میں ، آپ کیسے اپنے آپ کو قابو کرتے ہیں؟
زندگی کتنی غیر اہم سی ہوگئی ہے کوئی وقعت ہی نہیں رہی۔ قتل کر دینا کتنی آسان سی بات ہے، میں سوچتی ہوں کہ ہم آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ اخلاقی قدریں ختم ہو کے رہ گئی ہیں ، کوئی کسی کا آسرا نہیں ہے، بھائی بھائی دشمن بن گئے ہیں یہاں اپنوں کو اپنوں سے ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو کیا یہ وہی پاکستان ہے جو علامہ اقبال کا خواب تھا ! جس کی تعبیر کا سہرا قائداعظم کے سر تھا! آج بھی اقتدارمیں آئے ہوئے لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں ، کوئی گھر بیٹھ کر ، کوئی میڈیا پر ، کوئی سڑک پر احتجاج کرتا ہے تو کوئی فٹ پاتھ پہ ہی بیٹھا کوستا رہتا ہے، تو کیا ہم اس پاکستان سے جہاں اپنے اپنوں کے دشمن ہیں اُس ہندوستان میں اچھے نہیں تھے جہاں غلامی کی زندگی تھی پر اپنوں کا خیال تھا احساس تھا ، غلام ہو کر بھی ایک تھے ، ہم کیا باور کروا رہے ہیں دنیا کو کہ ہم نے اس لئے آزاد ملک حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم آرام اور سکون سے اپنوں کے ساتھ لڑ سکیں اور کو قتل کر سکیں۔ کیوں مر گئے ہیں ہمارے احساس، جذبات، دوسروں کے لیے محبتیں کیوں ختم ہو گئیں ہیں! ہر طرف مایوسی کا عالم ہے ۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ عید الضحی سے چار دن پہلے بکرا لا کر پال لیں تو عید پہ اسے قربان کرتے ہوئے گھر اس کونے میں جہاں اس کی چیخوں کی آواز نا آئے جا کر آنسو بہا تے ہیں ۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جن کو کسی انسان کو قتل کرتے ہوئے ذرا بھی دکھ نہیں ہوتا ! یہاں قاتلوں کو سلیوٹ کیے جاتے ہیں! یہاں بے بس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ! یہاں بہن بیٹوں کو عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ تو پھر پاکستان اور ہندوستا ن میں کیا فرق ہے؟ کونسے مسلمان ہیں ہم کہ جنت کی خاطر لاکھوں لوگوں کو بم بلاسٹ میں اڑا دیتے ہیں ۔ اب پاکستان میں کچھ نہیں ہے، جہاں بجلی ، گیس ، آٹا ، چینی، حتی کہ ٹماٹر پیاز تک بہران ہے وہاں ہی اخلاقی روایات ، اخلاقی اقدار، جذبات ، احساسات کا بحران ان سب سےکہیں بڑھ کر ہے۔ اور ہم یہ سوچ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ یہی ہے مقدر میں! یا پھر پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک کو تر جیح دیتے ہیں۔ مجھے گلہ نہیں کرنا چاہئے شاید کیوں کہ ہم سب ہی اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے ۔
اور شاید اب اسے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا کہ
منیر اب مان لے تو بھی مقدر کی حقیقت کو
جو ہے وہ بھی ضروری ہے جو تھا وہ بھی ضروری تھا۔
واسلام۔
اور شاید اب اسے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا کہ
منیر اب مان لے تو بھی مقدر کی حقیقت کو
جو ہے وہ بھی ضروری ہے جو تھا وہ بھی ضروری تھا۔
واسلام۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Total Pageviews
62,136