میری شادی ہونے والی تھی اور شاپنگ کے سلسلے میں روز مارکیٹ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک روز شاپنگ کے دوران ہم گزر رہے تھے کہ راستے میں مردوں کا ایک ٹولہ نظر آیا۔ ان سے چند ہی قدم دور ایک خواجہ سرا آرہا تھا۔ جب وہ قریب سے گزرا تو مردوں نے اپنی اوقات دکھاتے ہوئے فقرے کسے ، ایک صاحب تو اپنی اوقات سے بھی باہر نکلے اور اسے چھوا۔ وہ غصے میں بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا اور آج بھی ان میں قید ہے ، اسوقت میں نے اپنے صحیح سلامت ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا، مگرساتھ ساتھ اس خواجہ سرا کی بے بسی پر ترس آیا اور ان مردوں کے ٹولے پر انتہائی غصہ۔
لیکن میری اور میرے غصے کی کیا اووقات۔ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے ، یہاں مردوں کی حکومت ہے۔ اور جب حاکم طاقتور اور محکوم کمزور ہو تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جیت کس ہے! کچھ دن پہلے خواجہ سرا علیشہ امسال کاپشاور میں قتل ہوا جس کی عمر صرف پچیس سال تھی۔لوگ قتل کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں، جیسے کہ بھتہ نا دینے پر، ناچنے کے بعد نیم عریاں تصویریں نا بنوانے پر، اور کچھ صرف یہ کہتے ہیں کہ ایک مشتعل شخص نے علیشہ کو آٹھ گولیاں ماریں ۔
جس کے بعد اسے اس کے ساتھی اٹھا کر لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے گئے جہاں پر ڈاکٹرز اور مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے لواحقین نے ان پر فقرے کسے۔
آہ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ چیخوں ، چلاؤں ، زور زور سے روؤں ۔ کوئی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو اور اس کے ساتھ یہ سلوک۔ کیسے کیسے جانور جنم دئیے گئے ہیں اس دنیا میں ، انسانوں کے روپ میں درندے ۔ کہا جاتا ہے کہ اسے میڈیکل ٹریٹمنٹ نہیں دیا گیا ، مرد وں اور عورتوں کے وارڈ میں رکھنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہسپتال کے غسل خانے کے سامنے اس نے دم توڑ دیا ، اور کچھ کہتے ہیں کہ ہسپتال کے باہر درخت کے نیچے۔ اور کچھ یہ کہتے ہیں مردوں اور عورتوں کے وارڈ میں جگہ نہ ملنے کے بعد اسے ایک الگ کمرے میں منتقل کر دیا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا ۔
ہوتے ہیں پائمال تو کہتے ہیں زرد پھول
کل رحمت عمیم کا ہم پر بھی تھا نزول
یاران بوستان میں ہمارا بھی تھا شمول
اے راہ رو، نہ ڈال ہمارے سروں پہ دھول
ہر چند انجمن کے نکالے ہوئے ہیں ہم
لیکن صبا کی گود میں پالے ہوئے ہیں ہم

ڈاکٹر ز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ان تمام باتوں کو بے بنیاد کہا ہے ۔
سننے میں آیا ہے کہ کسی ڈاکٹر نے خواجہ سرا سے یہ بھی پوچھا کہ صرف ناچتے ہو یا کسی رات کے لئے بھی میسر ہو ، معاوضہ کیا ہے؟
میں نے جو کچھ لکھا ہے صرف سنا ہے ، خبروں میں ، لوگوں سے ، فیس بک پر۔
اس وقت میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہوتا تو میرا دل پھٹ نہیں جاتا ؟ ایک انسان جس کو آٹھ گولیاں لگی ہو، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو، اور اسے اس کے وجود پر گالی دی جائے، مذاق اڑایا جائے ، بہت اچھا ہوا علیشہ مر گئی۔ جاتے جاتے تکلیف میں اس کی جان نکلی ہو گی پر ہر روز کی مو ت سے ایک د ن مر جانا بہتر ہے۔
کیسے لوگ ہیں ہم۔ یہ خواجہ سرا بھی ہم ہی انسانوں میں سے کسی کے وجود کا حصہ ہے ، انہیں جنم دے کر فٹ پاتھوں پر چھوڑ آنے والے اپنے آپ کو گالی کیوں نہیں دیتے ؟ سب سے بہتر وہ ان کے ساتھ یہ کر سکتے ہیں کہ انہیں پیدا ہوتے ہی مار دیں ۔ انہیں ہر روز مرنے کی اس اذیت سے نجات دلا دیں۔
ہم شدت اور انتہا پسند قوم ، حوصلے اور ظرف سے گرے ہوئے لوگ، ہم فرقوں میں بٹے مغرور لوگ۔ ہم خواجہ سراؤں کو کہاں برداشت کریں گے ۔ اتناحوصلہ آسمانوں سے بھی نہیں اترے کا ہم سب کے لئے۔
ہم دراصل اس زمین کے مالک بن گئے ہیں ، اور جس کی ملکیت ہے اسے بھول گئے ہیں ،نہ صرف اس زمین کے بلکہ اس پر رہنے والوں کے بھی۔ اس زمین پر ہم اپنی مرضی کا راج چاہتے ہیں ، اپنی مرضی کے لوگ، مذہب ، ذات پات، فرقے، اور جنس ہر چیز پر اپنی بادشاہت کا سکہ جمانا ہے ہمیں۔ وہ کون ہوتا ہے جس نے خواجہ سراؤں کو بنایا، خواجہ سراؤں کو کوئی حق نہیں کہ وہ عزت کی زندگی گزاریں انہیں ذلیل ہونا ہے ، اور ذلیل کرنے کے لئے ہم ابھی اس خطے پر موجود ہیں۔
میں تو اس تکلیف کا اندازہ بھی کرنے سے قاصر ہوں جو اُن سب کو اس وقت ہوئی ہوگی۔ علیشہ کے مرنے کے بعد وہ سب لوگ اپنے وجود کو بدعا بنا کر ظلم کرنے والوں کو دیتے رہے۔کیسی تکلیف ہے ، سن کر ہی دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے ، ہم کسی کے سامنے اپنے عزت نفس کے لٹ جانے پر شور مچاتے ہیں روتے ترپتے ہیں اور کہاں بیچارے وہ لوگ اپنے کو وجود کو بدعا بنا کر ظالموں کو دیتے ہیں۔کوئی کیسے اپنے وجود کو گالی دے سکتا ہے ؟ اور کس حوصلے سے ؟!!!!
ایک خواجہ سرا کی فریاد۔۔۔۔۔
نہ میں پتر نہ میں دھی آں
نہ میں دھرتی نہ میں بی آں
میں وی ربا تیرا ہی جی آں
توں ای مینوں دس میں کی آں ؟
وہ نسلی کتا تھا ، بس چند ہی دن کا کہ اسے اس کی ماں سے الگ کر دیا گیا ،اس کی نسل کون سی تھی یہ مجھے یاد نہیں ، مگر یہ یاد ہے کہ امی کے کزن کے کے پاس بڑے عرصے سے اس نسل کا کتا اور کتیا موجود تھے۔ ماموں جان کی فرمائش تھی کہ انہیں کتا چاہئے ۔ زمینوں کے کام کے سلسلے میں اکثر وہ راتوں کو جایا کرتے تھے اور بسا اوقات تو ان کا بسیرا بھی رات کو ووہیں ہوتا تھا ، کتوں کا شوق انہیں جوانی سے ہی تھا۔ بہت عرصہ تک ان کے پاس جرمن شیفرڈ رہا جو کہ ان کے ایک قریبی دوست کے انہیں گفٹ کیا تھا۔بڑا وفادار کتا تھا ، ماموں نے اس کا نام موتی رکھا تھا۔مالک کے منہ میں نوالا جانے سے پہلے اپنے کھانے کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ اور ماموں جان کو کوئی کچھ کہہ جائے یہ بھی اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا فورا سے پہلے وہ اس بندے کی ٹانگیں پکڑ لیا کرتا تھا۔ کرکٹ کا شوقین تھا مگر کرکٹ میں اسے وکٹ کیپر بننا ہی پسند تھا ۔ ایک دفعہ بیمار ہوا اور چپ چاپ حویلی کے کونے میں پڑ کے مر گیا ، اس کی موت کے بعد بہت عرصہ تک ماموں جان نے کوئی کتا نہیں پالا۔
اور اب یہ جو انہوں نے کزن سے منگوایا تھا ۔ بڑا دل پھینک تھا سب کے پاوں میں لوٹنے لگتا ، دنوں میں ہی بڑا ہو گیا تھا، یا شاید عرصے بعد ماموں جان نے کتا پالا تھا تو اس کا خوب خیال رکھا دن رات کھلایا پلایا دیکھتے ہی دیکھتے ایک دم ہٹا کٹا جوان ہو گیا۔
ہوا کچھ یوں کہ بہت دنوں سے ایک باؤلا کتا ماموں جان کی زمینوں پر بندھے جانوروں کے اردو گرد بولایا بولایا پھر رہا تھا ، کبھی کبھار قریب بھی آ جاتا تو ہمارا کتا اس پر بھونکنے لگتا ۔ ایک دن وہ جانوروں پر چڑھ دوڑھا اور ایک گائے اور بھینس کے بچے کو کاٹ لیا۔ اور ہمارے کتے سے اس کی مدبھیڑ ہوگئی۔ اچانک ماموں جان آئے اور اس مار بھگایا ۔
وہ نہیں جانتے تھے کتا جانوروں کو کاٹ کر گیا ہے۔ایک لاپرواہی انہوں نے یہ کی کہ کتے کی ویکسینیشن نہیں کروائی۔ چند دن گزرے کہ جانوروں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ اور ہمارے کتے نے اپنی سی کرتے چند دن وفاداری نبھانے کی پوری کوشش کی مگر جب اس کے اختیار سے باہر ہوا تو اس نے میرے ماموں کو اور انکے بیٹے کو دانت لگا دئیے ۔اور انہیں ویکسینیشن کروانی پڑی۔ گھر والوں کو تشویش ہو ئی ، جانوروں کو بھی ٹیکے وغیرہ لگے مگر دیر ہو چکی تھی ۔جانور بیچنے پڑے نتیجتا نقصان ہوا۔
اب اس کتے کو کچھ کہنے کو دل نا کرے۔ وہ گھر سے چلا گیا ۔ گاؤں میں کبھی یہاں کبھی وہاں بولایا بولایا پھرتا رہا کہ ایک دو جگہ اور لوگوں کے جانوروں کا نقصان ہوا۔ بہرحال ایک دن ممانی کے اصرار پر ماموں جان نے بندوق اٹھائی اور نکل پڑے اسے ڈھونڈنے۔ وہ کہیں کوڑے کے ڈھیر کے پاس ملا ، دو گولیاں کھا کے ڈھیر ہو گیا ۔
اس بات کو چار پانچ سال ہو چکے ، مگر آج یونہی بیٹھے بیٹھے میں انسانی خواہشات کے بارے میں سوچ رہی تھی تو مجھے وہ بہت یاد آیا ۔ ہماری بہت سی خواہشات بھی تو کسی باؤلے کتے کی طرح ہی ہوتی ہیں، اور ان خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہم اپنے پرائے کا فرق بھول جاتے ہیں ، باؤلے ہو کر کاٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔
غلط اور صحیح کا فرق ختم کر دیتے ہیں ، بس ہر وقت بولائے بولائے پھرتے ہیں ، نا ہمیں سکون آتا ہے نا ان لوگوں کو جن کا ہم نقصان کر رہے ہیں ۔ اور ایسے خواہشات کا انجام یقننا ماموں جان کے باؤلے کتے کی طرح ہوتا ہے ۔ یا تو جان جاتی ہے یا پھر خسارے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
یا شاید باؤلا ہونا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا، ہم بھی اپنی ممکنہ کوشش کر کے نبھاتے ہیں مگر جہاں خواہشات کا گھیرا تنگ پڑتا ہے تو اپنی جان بچانے کے لئے دوسروں کو کاٹنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔
یہی کوئی ایک مہینہ پہلے کی بات ہے میرے گھر کے باہر لگے درخت کے پتے پیلے ہو ہو کر گر رہے تھے ، میں نے یونہی ڈرائنگ روم میں کھڑے کھڑے اس کی ایک تصویر بنا لی ، پھر میں نے غور کیا کہ میرے لاؤنج میں پڑے ان ڈورپلانٹس کے پتے بھی جھڑنا شروع ہو گئے۔ میں روز پتے اکھٹے کرتی ، گملوں کو صاف رکھتی ، انہیں پانی دیتی ۔ دل ہی دل میں پریشان بھی ہوئی مجھے لگا شاید سردی کی وجہ سے ہم لوگ ہیٹر آن رکھتے ہیں اس لئے پودے خراب ہو رہے ہیں ۔ اس سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا کہ مجھے بھائی کی شادی کے سلسلے میں فیصل آباد جانا پڑا تو واپسی پر میرے گیندے کے پھول عدم توجہی کے سبب اپنی آخری سانسیں پوری کر چکے تھے ، انہیں دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا ۔ پھر گلاب کے پودے کے پتے بھی جھڑنے لگے مجھے فکر ہونے لگے کہ میاں صاحب سے ڈانٹ نا پڑ جائے کیونکہ پودے لانے کا شوق مجھے ہی تھا۔ مگر اپنے مطابق میں انکا پورا خیال رکھ رہی تھی ۔اور چونکہ بحریہ ٹاؤن میں تو جگہ جگہ پھول پودوں کی بھرمار تھی تو ڈر اور بھی پکا ہوتا گیا کہ باہر تو گلاب کے پودے سلامت ہیں بلکہ ان پر پھول نے اپنا قبصہ جما کے رکھا ہے تو پھر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے ۔
پھر چند دن گزرے کہ ان ڈور پلانٹس کے چھوٹے چھوٹے پتے نکلنے لگے میرے دل کو ذرا سا قرار آیا ،اور یونہی ایک دن صبح سویرے میں ٹیرس پر گئی تو گلاب کا ا یک پھول مسکرا رہا تھا ، پتا نہیں وہ مسکرا رہا تھا کہ میں خود ۔ بہرحال اسے دیکھ کر بہت خوشی ہو ئی کیونکہ میں پھولوں کی بہت دیوانی ہوں ۔
زندگی کسی کو بھی ملے شاید ایسے ہی خوشی ہوتی ہے ، یا پھر خوشی کا دوسرا نام زندگی ہے۔ میرے گھر کے باہر لگے درخت پر آج بھی کوئی پتا نہیں ایسا لگتا ہے وہ بوڑھا ہو گیا ہے ، مگر یہ پھول پودے بھی کیا چیز ہیں ، موسم ان پر اثر انداز ہو تے ہیں ، بالکل انسانوں کی طرح جب ان کی ٹہنوں پر پھولوں ، پھلوں ، اور پتوں کی بہار رہتی ہیں ، یہ انتہائی خوبصورت لگتے ہیں ، انہیں دیکھنے کو دل کرتا ہے، اور جیسے ہی ان پر خزاں آتی ہے کتنے اکیلے ہو جاتے ہیں ،خراں کا دکھ انہیں بوڑھا سا کر دیتا ہے ، پھر بہار اپنے بادل برسانے لگتی ہے ، بس یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے،
مجھے خراں زدہ درخت دیکھ کر بوڑھے لوگ بڑی شدت سے یاد آتے ہیں ، اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے ، اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد جب وہ اولاد کے سہارے زندگی گزارتے ہیں ،بڑے کم خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ کہ جن کو بڑھاپے میں اولاد کے سہار ے کے ساتھ ان کا ساتھ بھی میسر ہوتا ہے ،
ورنہ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو گوشہ نشینی اختیار کر لیتے اور یاد خدا میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے فرائض ڈھلتی عمر میں بھی ختم نہیں ہو پاتے ، میں نے سڑکوں پر کام کی تلاش میں بیٹھے مزدوروں کو دیکھا ہے ، سبزی منڈیوں میں جھکی کمر کے پر ڈھیرو ں وزن اٹھائے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوتے ہیں۔
اور کچھ بیچارے معذور ہو جاتے ہیں دوسروں کے سہاروں پر زندہ رہتے ہیں ، جس میں انہیں بھی تکلیف ہوتی ہیں اور سہارا بننے والوں کو بھی ۔ کیونکہ ہر انسان اپنی برداشت تک ہی مشکل وقت میں ساتھ دیتا ہے ۔
کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ زندگی پر خزاں آتی ہی کیوں ہے ، بہار ہی کیوں نہیں رہتی ہمیشہ۔
میرے گھر کے باہر لگا درخت دیکھ کر مجھے اپنی نانی اماں بہت یاد آتی ہیں، اب تو بہت کمزرو ہو گئی ہیں ، مگر ایک زمانہ تھا کہ ان پر بہار بہت مہربان تھی ، جتنا ایکٹیو میں نے اپنی نانی اماں اور امی کو دیکھا شاید ہی کسی کو دیکھا ہو ۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ زمینوں کے کام کاج میں بھی نانا جان کا ہاتھ بٹایا کرتیں تھی ، جانوروں کی دیکھ بھال ، زمینوں کے لیے بیج کا بندوبست، سردیوں میں اوون کا کام ، گھر کی رضائیاں ، چارپائیاں بنانا، نانی اماں کے گھر میں ہمیشہ مرغیاں ہوتی تھیں ، انڈے کبھی ختم نہیں ہوتے ، گھر میں پکنے والی سبزی زمینوں پر لگی ہوتی تھی ، اور اس کا خیال رکھنا نانی جان کی ذمہ داری تھی ، گھر میں بھی انہوں نے لہسن ، پیاز، اور سبز مرچیں وغیرہ لگائی ہوتیں تھی کہ انہیں کسی دکان پر نا جانا پڑے ۔ غرض میں نے اپنے بچپن میں اپنی نانی اماں کو گھر کے ہی نہیں ہمسائیوں کے ساتھ کام میں بھی مصروف دیکھا۔ اور آج جب وہ خود اٹھ کر چل نہیں سکتیں تو دیکھ کر دل کو ہمیشہ دکھ سا ہوتا ہے۔ہم اپنے پیاروں کو ہمیشہ صحت مند و تندرست دیکھنا چاہتے ہیں مگر کاش یہ ہمارے اختیار میں ہوتا۔۔۔۔۔
یہ دنیا خواب کا دریا نہیں لڑکی
جسے تعبیر پانے کی ہوس میں پار کر لو تم
یہ دنیا اک تماشائی
مسلسل آبلہ پائی
کہ جس پر چلتے پاؤں درد کی جنت کو چھوتے ہیں
یقین و بے یقینی ہی کچل دیتی ہے سر ان کے
یہاں پر آنکھ میں جن کی بہت سے خواب ہوتے ہیں
محبت درد دیتی ہے تو نفرت سیج ہے ایسی
کہ جس کی رہ گزر میں ہر قدم پر خار ہوتے ہیں
مگر تم حوصلہ رکھنا
وفا کا سلسلہ رکھنا
یہ آنکھیں خواب کا گھر ہیں
مگر تم خواب مت بُننا
کہ سارے خواب آنکھوں میں
ہی سانسیں توڑ جاتے ہیں
انہیں تعبیر ملنے کی کوئی امید مت رکھنا
انہیں خوابوں کی ہم نے کرچیاں پلکوں سے چننی ہیں
سنو لڑکی!
خوشی بانٹو
ہنسی کے رنگ بکھراؤ
یہ دنیا خواب کا دریا نہیں جس کو
کسی کچے گھڑے پر پار کر پاؤ۔
ناعمہ عزیز
آہ !
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم کسی کے مرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ
اس کے ساتھ کیا ہوا؟
کیوں ہوا ؟
کس نے کیا؟
میں عورت پر تر س کھانے کی قائل نہیں ہوں عورت بڑی مضبوط مخلوق ہے اللہ نے عورت کو اپنے بعد تخلیق کرنے کی صلاحیت کا اعزاز بخشا ، بڑی بڑی تکلیفوں کا مقابلہ مرادنہ وار کرنے کی جرات عطا کی ! میں ریحانہ جباری کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ جس نےاس بدکردار گھٹیا شخص کا خون کیا اور ہر وہ شخص کہ جو اس جرم کا مرتکب ہو یا ایسی کوشش کرے اسے سڑک پر لیٹا کرپیٹرول چھڑک کے آگ لگا کر زند ہ جلا دینا چاہئے ، یا بندوق پکڑ کر ٹانگوں سے گولیاں مارنی شروع کرنی چاہییں اور آخری گولی دماغ میں مارنی چاہئے ، یا دہکتے ہوئے کوئلوں پر تب تک بیٹھا نا چاہئے جب تک اس کی چلتی سانس بند نا ہو جائے اور اس کے بعد چاہے ریحانہ جباری کی طرح خود پھانسی ہی چڑھنا پڑے تو کم سے کم مرنے پر افسوس تو نا ہو۔۔۔!!
اور یہ میں نے اس لئے کہا کہ ایران ہو یا پاکستان، قانون صرف مردوں کے لئے ہی ہیں تو اس صورت عورت کو تو اپنا قانون خود ہی بنانا پڑے گا ۔
وہ ریحانہ جباری ہو، کہ جس کو اپنی عزت بچانے کے قتل کرنا پڑے یا کائنات سومرو ہو کہ جس کو عزت لٹ جانے کے بعد کارو کاری قرار دیے کر مار دیا جائے ، یا کئی ایسی خواتین کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت پر جب آواز اٹھائیں تو ان کی آواز کو ڈرا دھمکا کر بند کر دیا جائے اور نتیجتاََ انہیں دنیا میں اپنا وجود اسقدر ناکارہ لگے کہ انہیں خودکشی کا سہارا لینا پڑے !!!!یا تاریخ میں پڑے ایسے کئی واقعات کہ جب عورت کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا دیا اور پھر وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہے ، لوگ اُس سے ایسے دور بھاگیں کہ جیسے اُسے کوئی اچھوت کی بیماری ہے ۔
اور ریحانہ جباری بھی اگر چپ چاپ سب سہہ جاتی تو آج دنیا کے کسی کونے میں وہ بھی ایسی ہی زندگی بسر کر رہی ہوتی ۔
ریحانہ جباری کا آخری خط پڑھ کر سب کا دل دہل گیا !
اس نے سات سال جیل میں گزارے ! سات سال لکھ لینا آسان ہے گزارنا کس قدر مشکل یہ وہ عورت جانتی ہو گی ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اس نے ااپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کی ، اپنے حق میں دلائل پیش کئے !
اس نے اپنے آخری خط میں لکھا کہ

ہاں اس نے ٹھیک لکھا اگر ایسا ہی ہوتا تو آج ریحانہ جباری کو کون یاد رکھتا ؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ وہابی تھی بعضے کہتے ہیں وہ ایران میں تھی ،اسے مرنا ہی تھا
اس بات پر میرا دل کیا کہ میں زور زور سے ہنسوں !
یا چیخ چیخ کے روؤں !
ہم لو گ کلاسیفکیشن سے کبھی باہر نہیں آسکتے !
وہ مسلمان نہیں ،
سنی نہیں ،
مرد نہیں وغیرہ وغیر ہ
ہمیں ہر صورت میں ایک حد بندی کرنی ہے ، یہ بتانا ہے کہ صرف ہم معتبر ہیں ہم عزت دار ہیں ہم شریف ہیں اور ہم جنتی ہیں ۔
اور یہ سب صرف دل کی تسلی کے لئے ۔
ورنہ کہنے کو تو کسی انگریز نے کیا خوب ہی کہا ہے کہ
"اس سے پہلے کہ تم مجھ پر انگلی اٹھا یہ سوچو کیا تمھارے ہاتھ صاف ہیں ؟"
اللہ کا محبوب کون ہے اُسے کون پسند ہے ، کس کا فعل اُس کے لئے سب سے پسندیدہ ہے !اس فیصلے کا اختیار اللہ نے انسان کو کب سے دے دیا ؟ جب اللہ نے انسان کو دینے کے لئے کوئی حد بندی مقرر نہیں جب سنی ، وہابی ، شیعہ، ہندو ، عیسائی سب کو اللہ اپنی مرضی سے نوازتا ہے تو انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ صرف خود کو معتبر ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو مجرم بناتا پھرے ؟ یا اللہ کے معاملات میں دخل اندازی کرے ؟
کیوں ہم انسانوں کو انسان نہیں سمجھنا چاہتے !
ریحانہ جباری کا ایک خط پڑھ سب کے دل دکھی ہو گئے اور اگر اپنے اس قبر جیسی جیل میں گزرے سات سال کی کہانی بیان کر دیتی تو ہم پر کیا گزرتی ؟
جاتے جاتے وہ عورت اپنے عورت ہونے کا ثبوت دے کر گئی ۔

اور آخری دم تک اس نے اپنی اقدار کی حفاظت کی کہ اُسے اقدار کی حفاظت کا درس اسے دیا گیا تھا ۔

میری طرف سے حوا کی اس بیٹی کے لیے سیلوٹ
  !
 
اردو محفل کے سالانہ مشاعرے کے لئے لکھی گئی میری نئی غزل

زمین ڈھونڈتے رہے، زمان ڈھونڈتے رہے
ترے وجود کا فقط نشان ڈھونڈتے رہے

ترے جہان نے ہمیں تو بے امان کر دیا
کہ شہر کربلا میں ہم امان ڈھونڈتے رہے

وہ مسجدِ نبی ہو یا مدینۃ النبی کی خاک
حبَش کے اک غلام کی اذان ڈھونڈتے رہے

کہاں ہے تو چھپا ہوا، کبھی تو ان کی آہ سن
تجھے پکارنے کو جو زبان ڈھونڈتے رہے

خوشی میں اور فغان میں، گمان اور دھیان میں
تجھے کہاں کہاں نہیں ، اے جان ڈھونڈتے رہے

از: ناعمہ عزیز
کہا جو تم نے
جہان بھر میں
مکیں کے اندر، مکاں کے اندر
زمین اور آسماں کے اندر
خدا کہیں بھی نہیں رہا ہے
بجا کہا ہے
یہاں جوظلم و ستم ہے جاری
کہ عشقِ گُل پر بھی سنگ باری
بھرے ہیں طوفان چشمِ نم میں
بہے ہے انسان سیلِ غم میں
زمانے بھر میں کہیں جو وہ دِکھ نہیں رہا ہے
بجا کہا ہے
مگر ذرا تم
ٹھہر تو جاؤ
کہ دو مجھے بھی تو یہ اجازت
عقیدتوں کو زبان دے لوں
حقیقتوں کا بیان دے لوں
یقیں کو بڑھ کر دوام دے لوں
خدا کا تم کو پیام دے لوں
کہ امن و انس و سلام دے لوں
اگر ہے تم کو تلاش اس کی
تو اپنے اندر نگاہ ڈالو
وجود اس کا جو ڈھونڈنا ہے
تو اپنے دل کو ٹٹول کر تم
چہار اکناف اپنے دیکھو
یہ خلق اس کی جو زندگی بھر
محبتوں اور نفرتوں کے ہے کھیل کھیلے
یہ لوحِ محفوظ میں اسی نے تو لکھ رکھا ہے
یہاں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو
محبتوں کا یقین توڑیں
کسی کو یونہی بلکتے روتے
کسی بھی انجانی رہ پہ چھوڑیں
مگر اسی ایک راہ پر ہی
وفاؤں کے کچھ امین بھی ہیں
جو خضرِ منزل بنے کشادہ دل و نگہ سے
رواں دواں ہیں پکارتے ہیں
جو راستے کے لُٹے مسافر کو
آسرا دے کے کہہ رہے ہیں
کہ ہم ہیں سیلِ وفا کی صورت
تو مہرباں ہیں خدا کی صورت
جو دل کے اندر ترے غموں کو
سمیٹ لیں گے خدا کی صورت
ازل سے لے کر ابد تلک جو
زمین اور آسماں کے اندر
محبتوں کی جو صورتیں ہیں
خدا بھی ان میں ہی دِکھ رہا ہے
خدا زمیں سے نہیں گیا ہے
خدا تمہارا بھی آسرا ہے
خدا ہمارا بھی آسرا ہے 

از : ناعمہ عزیز

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers