آہ !
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم کسی کے مرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ
اس کے ساتھ کیا ہوا؟
کیوں ہوا ؟
کس نے کیا؟
میں عورت پر تر س کھانے کی قائل نہیں ہوں عورت بڑی مضبوط مخلوق ہے اللہ نے عورت کو اپنے بعد تخلیق کرنے کی صلاحیت کا اعزاز بخشا ، بڑی بڑی تکلیفوں کا مقابلہ مرادنہ وار کرنے کی جرات عطا کی ! میں ریحانہ جباری کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ جس نےاس بدکردار گھٹیا شخص کا خون کیا اور ہر وہ شخص کہ جو اس جرم کا مرتکب ہو یا ایسی کوشش کرے اسے سڑک پر لیٹا کرپیٹرول چھڑک کے آگ لگا کر زند ہ جلا دینا چاہئے ، یا بندوق پکڑ کر ٹانگوں سے گولیاں مارنی شروع کرنی چاہییں اور آخری گولی دماغ میں مارنی چاہئے ، یا دہکتے ہوئے کوئلوں پر تب تک بیٹھا نا چاہئے جب تک اس کی چلتی سانس بند نا ہو جائے اور اس کے بعد چاہے ریحانہ جباری کی طرح خود پھانسی ہی چڑھنا پڑے تو کم سے کم مرنے پر افسوس تو نا ہو۔۔۔!!
اور یہ میں نے اس لئے کہا کہ ایران ہو یا پاکستان، قانون صرف مردوں کے لئے ہی ہیں تو اس صورت عورت کو تو اپنا قانون خود ہی بنانا پڑے گا ۔
وہ ریحانہ جباری ہو، کہ جس کو اپنی عزت بچانے کے قتل کرنا پڑے یا کائنات سومرو ہو کہ جس کو عزت لٹ جانے کے بعد کارو کاری قرار دیے کر مار دیا جائے ، یا کئی ایسی خواتین کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت پر جب آواز اٹھائیں تو ان کی آواز کو ڈرا دھمکا کر بند کر دیا جائے اور نتیجتاََ انہیں دنیا میں اپنا وجود اسقدر ناکارہ لگے کہ انہیں خودکشی کا سہارا لینا پڑے !!!!یا تاریخ میں پڑے ایسے کئی واقعات کہ جب عورت کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا دیا اور پھر وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہے ، لوگ اُس سے ایسے دور بھاگیں کہ جیسے اُسے کوئی اچھوت کی بیماری ہے ۔
اور ریحانہ جباری بھی اگر چپ چاپ سب سہہ جاتی تو آج دنیا کے کسی کونے میں وہ بھی ایسی ہی زندگی بسر کر رہی ہوتی ۔
ریحانہ جباری کا آخری خط پڑھ کر سب کا دل دہل گیا !
اس نے سات سال جیل میں گزارے ! سات سال لکھ لینا آسان ہے گزارنا کس قدر مشکل یہ وہ عورت جانتی ہو گی ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اس نے ااپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کی ، اپنے حق میں دلائل پیش کئے !
اس نے اپنے آخری خط میں لکھا کہ

ہاں اس نے ٹھیک لکھا اگر ایسا ہی ہوتا تو آج ریحانہ جباری کو کون یاد رکھتا ؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ وہابی تھی بعضے کہتے ہیں وہ ایران میں تھی ،اسے مرنا ہی تھا
اس بات پر میرا دل کیا کہ میں زور زور سے ہنسوں !
یا چیخ چیخ کے روؤں !
ہم لو گ کلاسیفکیشن سے کبھی باہر نہیں آسکتے !
وہ مسلمان نہیں ،
سنی نہیں ،
مرد نہیں وغیرہ وغیر ہ
ہمیں ہر صورت میں ایک حد بندی کرنی ہے ، یہ بتانا ہے کہ صرف ہم معتبر ہیں ہم عزت دار ہیں ہم شریف ہیں اور ہم جنتی ہیں ۔
اور یہ سب صرف دل کی تسلی کے لئے ۔
ورنہ کہنے کو تو کسی انگریز نے کیا خوب ہی کہا ہے کہ
"اس سے پہلے کہ تم مجھ پر انگلی اٹھا یہ سوچو کیا تمھارے ہاتھ صاف ہیں ؟"
اللہ کا محبوب کون ہے اُسے کون پسند ہے ، کس کا فعل اُس کے لئے سب سے پسندیدہ ہے !اس فیصلے کا اختیار اللہ نے انسان کو کب سے دے دیا ؟ جب اللہ نے انسان کو دینے کے لئے کوئی حد بندی مقرر نہیں جب سنی ، وہابی ، شیعہ، ہندو ، عیسائی سب کو اللہ اپنی مرضی سے نوازتا ہے تو انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ صرف خود کو معتبر ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو مجرم بناتا پھرے ؟ یا اللہ کے معاملات میں دخل اندازی کرے ؟
کیوں ہم انسانوں کو انسان نہیں سمجھنا چاہتے !
ریحانہ جباری کا ایک خط پڑھ سب کے دل دکھی ہو گئے اور اگر اپنے اس قبر جیسی جیل میں گزرے سات سال کی کہانی بیان کر دیتی تو ہم پر کیا گزرتی ؟
جاتے جاتے وہ عورت اپنے عورت ہونے کا ثبوت دے کر گئی ۔

اور آخری دم تک اس نے اپنی اقدار کی حفاظت کی کہ اُسے اقدار کی حفاظت کا درس اسے دیا گیا تھا ۔

میری طرف سے حوا کی اس بیٹی کے لیے سیلوٹ
  !
 

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers