بہار آئی
تو جیسے یک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے
شباب شارے
ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد میں ہر سال جشن بہاراں کے سلسلے میں ایک میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے ، جس میں اندرون و بیرون ملک سے لوگ شرکت کرتے ہیں ، دنیا بھر کے پھولوں اور جانوروں کی نمائش ہوتی ہے ۔ اور جب بہار آتی ہے تو ہر جگہ ہی نظر آنے لگتی ہے ، ٹھنڈی ہواؤں میں پھولوں کی خوشبو کا امتزاج، درختوں، بیلوں ، ٹہنیوں پر لدے پھول، ہرطرف قدرتی حسن چھا جاتا ہے ۔ زندگی لوٹ آتی ہے ، کالج جاتے ہوئے ، کنال روڈ نہر کے کنارے لگے قطار در قطار سفیدے کے درخت نہر کی خوبصورتی میں اصافہ کرتے آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں، اور کنال روڈ سے اتر کے دونوں سڑکوں کے درمیان گارڈن میں طرح طرح کے پھول، پھلوں کے درخت چھو لینے اور گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کی خواہش بڑھنے لگتی ہے ، ہاں مگر سڑک کے اس پار بیٹھے اس بوڑھے شخص پر مجھے کسی موسم کا کوئی اثر نہیں لگتا ، سردی ، گرمی، بہار ، خزاں میں اس بوڑھے شخص کو وہاں ہی بیٹھے دیکھا ہے ، گنتی کے چند ایک کپڑے ، کبھی کبھی چائے کا ایک کپ تھامے ، چپ چاپ بیٹھے اس شخص کو دیکھ کر خزاں کا گمان گزرتا ہے ، دل کرتا ہے ان کے پاس جاؤں اور پوچھوں
بابا جی تسی ایتھے ای کیوں بیٹھے رہندے او ؟
بابا جی روٹی دا انتظام کتھوں کر دے او ؟
بابا جی تواڈی اولاد کوئی نہیں ِ؟

غرض کئی سوال ذہن میں لئے میں روز وہاں سے گزر جاتی ہوں ، مگر خزاں کا گمان صرف ان باباجی کو دیکھ کر ہی نہیں ہوتا، یہاں ہر شخص خزاں رسیدہ ہے ، اپنے اندر خزاں کا موسم چھپائے ہوئے ہے ، ایسا ہی نہیں بہار، گرمی سردی بھی انسانوں کے اندر چھپی ہے مگر خزاں کا موسم مستقل ہے بالکل بابا جی کے مستقل چپ کی طرح !
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
یادوں کے موسم کو خزاں سے بھی تشبہیہ دی جاتی ہے ، اور شاید ہر کسی کے اندر یاد کا موسم ایسے ہی ہے جیسے کسی بوڑھے درخت کی جڑ، کہیں بہت اندر تلک ، بہت گہری !

جو تیری یادوں سے مشک بو ہیں
جو تیری عشاق کا لہوں ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
کہنا صرف اتنا ہی ہے کہ موسم گرمی ہو یا سردی ، خزاں رہے یا بہار ، جب اندر کے موسم اچھے ہوں ، سکون اور اطمینان کے وسعتوں کو چھوتے ہوں تو خزاں بھی بہار لگنے لگتی ہے ، جون کی سخت دھوپ میں بھی ٹھنڈک اندر اتر جاتی ہے ۔ اور جب اندر بے سکونی کے گھٹاٹوپ اندھیرے لئے ، یادوں کے طوفان اپنی بپھرتی موجوں کے ساتھ آنکھوں میں اتر آتے ہوں تو مقابل بہار ہو ، قدرتی حسن کی بھرمارہو یا سرما کی پہلی بارش وہ طوفان آ کر ہی رہتا ہے ۔
ملال احوال دوستاں بھی
خمار آغوش مہوشاں بھی
غبار خاطر کے باب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے۔



مرے طزر و فکر کا نقش گر
مرِی عقل و فہم سے بالاتر
کہ میں جان لوں تیرا راستہ
مِرا قلب تو ہے تیرا ہی گھر
مرِی آنکھ میں تیرا عکس ہو
مجھے خود میں اتنا فنا توُ کر
میں چھپی ہوں خود میں ہی کسقدر
مجھے کھول دےمیری ذات پر
مجھے آگہی کی دے روشنی
دے میرے جنون کو ر ہگزر
مرِی زندگی کا ہر اک سفر
ترِی راہ میں ہو گزر بسر
از: ناعمہ عزیز
میری شاعری کو پڑھ کے
میری دوستیں پوچھتی ہیں
سنو گڑیا
کہیں تمھارے لفظوں میں
خوشی کے رنگ ملتے ہیں
کہیں تمھارے جذبوں میں
غموں کے تاثر دکھتے ہیں
کہیں تم روتی ہوں
شدتِ غم کے حوالوں سے
کہیں چپ سی نظر آتی ہو
گہرے خیالوں میں
مگر جب تم
ہمارے ساتھ ہوتی ہو
تو تمھاری آنکھوں میں دُکھ کا
کوئی سایہ نہیں دِکھتا
تمھاری مسکراہٹ
زندگی سے بھرپور ہوتی ہے
کہ تم گنگناتی ہوں
تم سب مدہوش ہوتے ہیں ،
ہمیں اک بتلاؤ
تمھارا کونسا ہے روپ ؟
جسے اصلی سمجھ لیں ہم ؟
تو دھیرے سے میں کہتی ہوں
بہت سادہ سے لفظوں میں
مجھے یہ بات کہنی ہے
کہ میرے لفظ میری شاعری ہے ترجمہ میرا
کہ میں خود ہی نہیں ہوں جانتی اپنا کوئی پتا
ہاں پر اتنی حقیقت ہے
کسی اپنے کے ہجر نے
بہت ہی توڑ ڈالا ہے
وجہ بس اتنی سی ہے کہ
میرے لفظوں کی سب راہیں
اسی منزل کو جاتی ہیں
تو سب محسوس کرتے ہیں
طوفان غم کی شدت کو
میرے سب لفظ سب کو ٹوٹے پھوٹے بکھرے سے لگتے ہیں
میرے جذبے سبھی کو روکھے سوکھے گہرے لگتے ہیں
مگر
خود کو چھپا کر مسکراہٹ کے پردے تلے
میں مسکراتی، کھکھلاتی ، چہچہاتی ہوں
کہ میں یہ جانتی ہوں
زندگی کی قوس قزح کے رنگ ہیں یہ سب
بنا ان کے ادھوری ہوں
اور ان کے سنگ پوری ہوں !

از: ناعمہ عزیز

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers