میرے ساتھ بڑا عجیب مسئلہ ہے کہ جب کوئی بات مل جائے اس کی کھال اتارنے کو تیار ہو جاتی ہوں ، اور جب تک اسکی کھال نا اتر جائے مجھے چین نہیں آتا، مختصر الفاظ میں یہ کہ جب تک اپنے اندر کا اُبال باہر نا نکا ل لوںٕ مجھے وہ سوچ تنگ کرتی ہی رہتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ جب تک امتحان نہیں ہو جاتے میں کچھ نہیں لکھوں گی ، نا کچھ سوچوں گی ،
مزے کی بات یہ ہو ئی کہ رات کو خواب میں بھی میں یہ کہتی رہی ہوں کہ
Excess of everything is bad.
اب اسکی بھی وضاحت کرتی چلوں ، دراصل ہر چیز کی زیاتی بُری ہو تی ہے اس کا تعلق بھی میرے موضوع سے ہے،!


اب یہ معاملہ ہی لے لیں کہ دو دن پہلے کی با ت ہے کہ میری دوست نے میرےسامنے اپنے تین چار سال کے بھانجے کو اس لئے ڈانٹ دیا کہ وہ پنجابی بول رہا تھا ، میں نے کہا ، کوئی بات نہیں بول رہا ہے تو بولنے دو ، اتنی اچھی لگ رہی اس کی انداز میں پنجابی ، اور ویسے بھی پنجابی ایک زبان ہے ،اور جتنا مزہ پنجابی میں ہے اتنا اور کسی زبان میں نہیں ،
آپ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ اردو بولتے ہو ئے ذرا تکلف آجاتا ہے ، اور انگلش ایسی تو اس قدر تکلفانہ زبان ہے کہ میرے تو بول بول کر منہ میں درد ہو جاتا ہے !


میں یہ سمجھتی ہوں کہ نا کبھی بھی کچھ ایک انسان کی وجہ سے نہیں ہو تا ، آپ دیکھیں کہ بات پورے ملک کی ہے ، اور پورا ملک کسی ایک انسان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے تھوڑی برباد ہو سکتا ہے ؟ جیسے ایک انسان کی بربادی کے پیچھے صرف اس کا اپنا ہی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ جو اس کے اردگرد ہوتے ہیں ، اس سے وابسطہ ہوتے ہیں ، سب مل کر اسے تباہ و برباد کرتے ہیں ،
اسی طرح اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہم آج بھی ایک غلام قوم ہیں ، ہماری تہذیب و روایات ہمار ی تاریخ ، ثقافت کو ہم سب نے خود مل کر ختم کیا ہے ، آپ دیکھیں کہ ہمارا قومی لباس شلوار قمیض ہے لیکن آپ دیکھیں کہ کوئی بھی شلوار قمیض پہننا پسند نہیں کرتا ، ہر نئے فیشن کی پیروی کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے ، پہلے پی ٹی وی ایک ایسا چینل تھا جس کو سب کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا لیکن اب پی ٹی وی والوں پر بھی مغرب کا رنگ چڑھ آیا ہے!
دراصل ہمارے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اصول پسند لوگ نہیں ہے ، کم ازکم ایک ملک میں رہنے والے باشندوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات پر سمجھوتانہیں کرنا چاہئے ، ایران اور چین جیسے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ،
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ چین کے وزیراعظم تھے شاید جن سے ایک کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ آپ انگلش میں کیوں نہیں جواب دیتے
تو انہوں نے جواب دیا
" کیا چین کی اپنی زبان نہیں"؟
اور یہ پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے!
ہمارے یہاں تو تعلیم کا معیار ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ بیکن میں اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جاتی ہے، ایجو کیٹرز میں ذرا درجہ اس سے نیچے ہے اور اس سے جیسے جیسے پرائیویٹ سکول نیچے آتے جاتے ہیں ، درجہ اتنا ہی کم ہوتا جاتا ہے ،
اور جب آتے ہیں آپ گورنمنٹ سکولوں کی طرف تو میں نے اکثریت یہی دیکھی ہے کہ پرائمری اور مڈل لیول کے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہت گر چکا ہے ! ظاہر ہے غریبوں کے بچے گورنمنٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں اس لئے ہمارے یہاں زیادہ تر وہ ہی بچے لائق فائق کہلائے جاتے ہیں جو سب سے اعلیٰ درجے انگلش فر فر بولتے ہیں اور وہ ہیں امیر طبقے کی اولاد!
آپ حیران ہو ں گے کہ میری دوست بتاتی ہے کہ میرے بھتیجے مجھ سےپو چھتے ہیں کہ پھوپھو بیلون کو اردو میں کیا کہتے ہیں ؟؟
امیر طبقہ زیادہ تر اپنے بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر ہی خوش ہوتاہے ، مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ ہم آج تک کیوں اپنے ذہنوں کو آزادنہیں کروا پائے ! انگلش بولنا کوئی ثواب کا کام تو نہیں ؟ آپ ہی بتائیے کہ پنجابی بولنے میں کیا گناہ ہے ؟؟ اگر بچہ پنجابی بولتا ہے تو بُرا کیوں سمجھا جاتا ہے ؟
میں یہ نہیں کہتی ہوں کہ آپ انگریزی نا سیکھیں میں خود انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہی ہوں ، اچھی چیز انسان کو جہاں سے بھی ملے اسے اپنا لینی چاہئے لیکن ایسا نا ہو کہ
" کو ا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا "
پنجابی کی اپنی کی ایک اہمیت ہے ، اپنا ایک مقام ہے ، یہ اتنے مزے کی زبان ہے کہ میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ آپ اگر اس کو متبادل ڈھونڈیں تو آپ کو کہیں نہیں ملے گا ،آپ دیکھیں کہ اگر ہم انگریزی کو اتنا زیادہ بولیں گے تو پنجابی کا تو نام و نشان مٹ جائے گا نا ! اور ہمیں تو فخر کرنا چاہئے کہ ہمیں اردو اور انگلش کے علاوہ اور بھی زبانیں آتی ہیں ۔
خیر دیکھئے ، غور کرئیے ، اپنی شناخت کو مت کھویں ، اپنا آپ ختم کرکے دوسروں کا رنگ مت چڑھائیں خود پر ، ورنہ ایک روز ایسا آئے گا کہ یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ختم ہو کر رہ جائیں گی ۔


جب بھی کوئی موقع ایسا آتا ہے کہ پاکستان کی بات کی جائے ، پاکستانیوں کی بات کی جائے ، پاکستان کی سیاست کی بات کی جائے ، پاکستان کے حالات کی بات کی جائے تو بس ایک لمحے کو دل کرتا ہے کہ بندہ کہے ،
"نو کمنٹس"
مگر نہیں یہ بھی اختیار میں نہیں ہے ، ہم یہاں رہتے ہیں ، ہمیں پاکستان ایسے ہیعزیز ہے جیسے کہ ہمارا اپنا گھر ، جیسے ہم روز اپنا گھر صاف کرتے ہیں ، ایسے ہی دل کرتا ہے کہ ہمارا ملک بھی صاف ہو ، جیسے ہم اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں ایسے ہی دل کرتا ہے پاکستان کے لوگ مل جل کر رہیں ، پر افسوس ہوتا ہے جب ہم ملکی سیاست پر کیچر اچھالتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہم تو خود ہر جگہ ہر بندے کے ساتھ سیاست کھیلتے ہیں ، بات غور کرنے کی ہے ، کبھی غور کرئیے گا کہ ہم اپنےحصے کا ایک روپیہ بھی کسی کو معاف کرکے راضی نہیں ہیں، جبکہ دوسروں سے دس روپے بٹورنے کو بھی ہر لمحہ ہر وقت ایسے تیار رہتے ہیں جیسے ہندوستان کی ٹیم پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ہرانے کے لئے ۔
خواب سا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا بندہ ہو جو سب کچھ ٹھیک کر دے ، ہر جگہ ، ہر معاملے میں انصاف ہو۔
پاکستانی ہونے پر مجھے آج بھی فخر ہے ، اور فخر اس بات کا ہے کہ ہاں یہ وہ ملک ہے جسکو حاصل کرنے کے لئے ہم نے ایسی ایسی ناقابل فراموش قربانیاں دیں ہیں کہ آج بھی سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، پاکستان کی ہسٹری کو نکال کر دیکھ لیا جائے ، بڑے بڑے علما، مفکر، صوفی لوگ آپ کو ملیں گے ، آج بھی اس ملک میں اتنا ہی ٹیلنٹ موجود ہے ، مگر کمی صرف ڈائریکشن کی ہے ، ہمیں ڈائریکشن نہیں ملتی ، کمی صرف اتحاد کی ہے ، ہم مل جل کر نہیں رہتے ، کمی صرف جذبے کو جوان کرنے کی ہے ، کوئی تو ایسا ہو کہ جو اس جذبے کو ابھارے ، جو یہ بتائے کہ ہم ہی تو نگران ہیں ، ہمیں خود نگرانی کرنی ہے ، اور اگر ہم ہی گمراہ ہو لئے تو پھر یہ گھر کیسے بچ پائے گا ؟ اگر ہم خود ہی ہتھیار پھینک دیں گے تو کس طرح سے تحفظ کا احساس رہے گا ؟
ہم بس یہ کہتے ہیں ، کہ جب تک زرداری ہے کچھ نہیں ہو سکتا ، یہ آج کی بات نہیں ، یہ قصہ برسوں پرانا ہے ، جب تک مشرف تھا تب تک بھی تو کچھ نہیں ہوا ، تب حالات تھوڑے ٹھیک تھے ، اب تھوڑے اور خراب ہو گئے ہیں ، اور زرداری انکل کے بعد جو آئے گا تب شاید اس سے بھی زیادہ خراب ہو جائیں !
مسئلہ سیاست میں نہیں ، ہمارے اپنے اندر ہے ، ہم تعمیری کام نہیں کرتے ، بس تخیل میں دیکھتے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ خواب دیکھتے ہیں اپنے ملک کی بہتری کے ، تو ایک اس میں تھوڑا سا حصہ تو ڈالیے ۔ قدم تو آگے بڑھائیے ، ایک بار اس خواب کی تعبیر کے لئے کوشش کر کے تو دیکھیے ! کیا خبر کہ آپ کے اس عمل سے کوئی متاثر ہو ، اور اپنا حصہ ڈالنے کو قدم بڑھائے ، کیا پتا آپ کسی کی آواز بن جائیں ، ایک بار اتحاد کا عہد تو کیا جائے ، اپنے حصے کی وفا کرنا پڑتی ہے تاکہ اندر بیٹھا ٖٖوکیل سوال وجواب نا کرے ، ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرکے یہ نا پوچھے کہ تم نے کیا کر دیا ،کونسا کارنامہ سر انجام دیا اور کس بنیاد پر دوسروں کو تنقید کا نشانہ کیوں بنائے ہو ؟
خیر دُعا ہے کہ پاکستان کا مستقبل اچھا ہو، ہمارا اچھے لیڈروں سے واسطہ پڑے ، ہم سب کے اندر برداشت ، تحمل اور اتحاد و اتفاق ہو، اور ہم دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنے حصے کا پودا لگائیں تاکہ آنے والی نسلیں یہ نا کہہ سکیں کہ قصور ہم لوگوں کا تھا ۔
إٓمین


میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو اعلیٰ ظرف ہو ں او ر اس قدر اعلی ٰطرف ہوں کہ وہ دوسروں کو کسی بھی معاملے میں شاباش دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ، بڑا مشکل ہو تا ہے شاید کسی کے لئے بھی کہ وہ کسی کو اپنے سے اوپر کا مقام دے ، اپنے سے اونچا بیٹھا دے ، اپنے سے زیادہ کامیاب ہونے دے ،
لیکن مسئلے کا حل صرف اسی بات میں چھپا ہے کہ جب تک آپ کسی کو کسی چھوٹے سے کام پر شاباشے نہیں دیتے ، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس میں کسی بھی بڑے کام کو کرنے کو حوصلہ پیدا نہیں ہوتا، اگر اک ٹیچر کسی سٹوڈنٹ کی پریزنٹیشن پر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا تو پھر اسے یہ امید رکھنے کا اختیار بھی حاصل نہیں کہ وہ ہی سٹوڈنٹ اپنے ٹیچر کا نام روشن کرے ، اچھے نمبر لے ، ریکارڈ قائم کرے ،
آپ خود ہی سوچیں کہ اگر ایک ٹیچر آٹھ ٖصفحوں کی اسائنمنٹ میں 4 غلطیوں کو لے کر سٹوڈنٹ کا اپنےپاس بلا کر اس کی نشاندہی کرتا ہے، اور باقی جو ٹھیک ہے اس کے لئے کوئی حوصلہ افزائی نا کرے تو سٹوڈنٹ کو دل بھی نہیں کرے گا کہ اسائنمنٹ کو کھول کر دوبارہ سے دیکھے ، لیکن اس کے برعکس اگر وہ پاس اسے پاس بلا کر اسے شاباشے دیتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ بہت اچھا کیا ، اورسٹودنٹ اگلی بار اس سے بھی زیادہ اچھا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ جو کامیابی کا نشہ ہوتا ہے کہ حوصلہ افزائی سے ملتا ہے ، اور ایک بار جب یہ نشہ کسی کو ہو جائے اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کامیابی کی سیڑھی پر اوپر تک کی سیر کر کے آئے ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ والدین کا اپنے بچوں سے ہوتا ہے اگر وہ ایک بار اچھے نمبر نہیں لے سکے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان کو لعن طعن شروع کر دی جائے یا پھر ایموشنل بلیک میل کیا کہ تم نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا وغیرہ وغیر ہ، بچوں کے ذہن پر بھی دباؤ ہوتا ہے کہ فلاں فسٹ آیا ، فلاں سیکنڈ آیا میں صرف پاس ہوا ہوں آپ بچے کی حوصلہ افزائی کریں اس کو شاباشے دیں اور کہیں کہ کوئی بات نہیں اگلی بار تم اس سے اچھے نمبر لو گے ۔
ساس کا بہو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتاہے ، ساس بہو کو طعنے کوسنے دیتی ہے لیکن ایک بار شاباشے نہیں دیتی ، اسے یہ نہیں کہتی کہ تم نے میرے بیٹے کے سب کام کرتی ہو، تم نے میرا گھر سنبھالا ، تم نے میری خدمت کی شاباش ، ایسا کرنے سے ساس کی عزت میں کوئی فرق نہیں آتا ، پر بہو کی خدمت کا جذبہ ریفریش ضرور ہوتا ہے ،
آپ کسی ملازم کو شاباشے دیے کر دیکھیں ، یہ ٹھیک ہے کہ آپ اسے اس کے کام کی تنخواہ دیتے ہیں ، لیکن پھر وہ بھی کام تنخواہ کے مطابق ہی کرتا ہے، آپ اسے شاباش دیتے رہیں وہ آپ کا کھانا نمک حرام نہیں کرے گا ۔
آپ نے شاید خودی بھی کبھی آزمایا ہو کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جو کرنٹ انسا ن کے اندر دوڑتا ہے وہ ہی دراصل کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ اگلا کام اس سے بھی اچھا ہو۔
تو انسان کو چاہئے کہ وہ خود کو اتنا اعلیٰ ظرف ضرور بنائے کہ دوسروں کو کھلے دل سے شاباش دے سکے ، تاکہ اس سے وابسطہ لوگ کو کامیابی تک پہنچنے کے لئے زیادہ وقت نا لگے ۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers