ہمیں نرم خوئی کا حکم ہے - بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے فعل پر ہمیں بہت غصہ آ رہا ہوتا ہے - لیکن آپ اس کے باوجود کہ اس پہ غصہ کیا جانا چائے آپ غصہ نہیں کرتے ہیں - یہ ان کا کمال فن ہوتا ہے یا پھر وہ نان ڈگری ماہر نفسیات ہوتے ہیں - ایک بار ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا - میں ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں مری گیا - وہ بارشوں کا موسم تھا - اب میں جلدی میں تھا اور میں نے دو جوڑے ہی کپڑوں کے ساتھ لیے تھے - راستے میں موسلا دھار بارش ہوئی اور خوب برسی - اس شدید بارش میں باوجود بچنے کے میں شدید بھیگ گیا - میں شام کو مری پہنچا - میں خود بھیگ چکا تھا جب کہ دوسرا جوڑا میرے پاس تھا ، پانی اس میں بھی گھس گیا - اب میں سخت پریشان - اگلے روز میٹنگ بھی اٹینڈ کرنی تھی - خیر میں مال روڈ پر آگیا کہیں سے کوئی لانڈری وغیرہ مل جائے تا کہ وہ کپڑے سکھا کر استری کر دے - مجھے مال پر تو کوئی لانڈری نہ ملی ، البتہ لوئر بازار میں چھوٹی سی ایک دکان نظر آئی جس پر لکھا تھا " کپڑے چوبیس گھنٹے میں تیار ملتے ہیں " میں یہ پڑھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر کپڑے کاؤنٹر پر رکھ دیے - دکان کے مالک بابا جی نے کپڑوں کو غور سے دیکھا ، پھر بولے ٹھیک ہے " پرسوں شام کو لے جانا - جمعرات کی شام مغرب سے پہلے - "
میں نے ان سے کہا کہ " حضور آپ نے تو چوبیس گھنٹے میں تیار کرنے کا بورڈ لگایا ہوا ہے ؟"
وہ بابا جی (ذرا بڑی عمر کے تھے ) مسکرا کر بولے " ٹھیک ہے بیٹا چوبیس گھنٹوں میں ہی تیار کر کے دیتے ہیں - لیکن ہم روزانہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں - آٹھ گھنٹے آج ، آٹھ گھنٹے کل ، اور آٹھ گھنٹے پرسوں - یہ کل چوبیس گھنٹے بنتے ہیں - آپ کے کپڑے پرسوں شام چوبیسواں گھنٹہ ختم ہونے سے پہلے مل جائیں گے - "
اب میں حیران و پشیمان کھڑا بابا جی کا منہ دیکھ رہا ہوں کہ انھوں نے کس طرح سے چوبیس گھنٹے پورے کر دیے اور میرے پاس کوئی جواب بھی نہ تھا -
آپ مراقبہ کریں ، تفکیر کریں ، یا خاموش ہو کر ایسے ہی بیٹھ رہیں - اس میں آپ کو ایک اصول پر ضرور عمل پیرا ہونا پڑیگا ، کہ آپ کے ارد گرد روشنی ہے - روشنی کا بہت بڑا تنبو ہے اور آپ اس کے نیچے بیٹھے ہیں - روشنی کی ایک آبشار ہے - نیا گرا فال ہے اور آپ اس کے امڈتے ہوئےجھلار میں نہا رہے ہیں -
روشنی کیوں ؟ میں نے پوچھا " خوشبو کیوں نہیں ، رنگ کیوں نہیں ، نظارہ کیوں نہیں ؟ "
پروفیسر نے کہا " اگر میں عربی
میں کہونگا تو تمھاری سمجھ میں نہیں آئے گا بہتر یہی ہے کہ میں اطالوی میں سمجھاؤں - آسان اور سادہ اطالوی میں اور تمھارے قریب ہو کر بتاؤں کہ الله روشنی دینے والا ہے - آسمانوں کواور زمین کو - مثال اس روشنی کی یہ ہے کہ جیسے ایک طاق ہو اور اس کے اندر ایک چراغ ........... اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں ، ایک قندیل میں اور وہ قندیل ہے جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ ، تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت والے درخت کا جو زیتون کا ہے اور جو نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف !
لگتا ہے کہ اس کا تیل روشنی ہے اگرچے اس میں آگ نہ لگی ہو ............. روشن پر روشن ، نور پر نور .............. الله جس کو چاہے اپنی روشنی کی آگ دکھا دیتا ہے ، اور بیان کرتا ہے - الله کی مثالیں لوگوں کے واسطے ہیں اور الله سب چیز جانتا ہے - "
میں نے کہا " یہ تو کسی مذھبی کتاب کا بیان معلوم ہوتا ہے ، کسی پرانے صحیفے کا - "
انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے کہا " خداوند زمین و آسمان کی رونق اور بستی ہے اور کائنات کی ساری مخلوقات کو اسی سے نور وجود ملتا ہے - چاند ، سورج ، ستارے ، سیارے ، معلوم اور لا معلوم ، حاضر اور غائب ، انبیاء ، اولیاء ، فرشتے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے - اور ان میں جو واضح اور پوشیدہ روشنی ہے - وہ اسی خزانہ نور کی بدولت ہے - یہی وجہ ہے کہ استاد ، گرو ، پیر مرشد ، شیخ اور ہادی ، باطن کے مسافر کا پہلا قدم اندھیرے سے نکال کر نور کی شاہراہ پر رکھتے ہیں اور پھر اس کی انگلی پکڑ کر قدم قدم چلاتے ہیں - "
" لیکن اس میں طاق کا کیا مطلب ہے ؟ " میں نے پوچھا " جس میں روشنی کی قندیل رکھی ہے ؟"
کہنے لگے یوں تو خدا کے نور سے کل کائنات کے موجودات روشن ہیں لیکن گیان ذات کے متلاشی کا جسم ایک طاق کی مانند ہوجاتا ہے - ایک دراز قد محرابی طاق کی طرح ، اور اس کے اندر ستارہ کی طرح کا چمکدار شیشہ قندیل رکھ دیا جاتا ہے - یہ شیشہ اصل میں اس کا قلب ہوتا ہے - جو ایک اینٹینا کی طرح عالم بالا سے متعلق ہوتا ہے اور اپنے سارے سگنل وہیں سے وصول کرتا ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
برسوں بیت جائیں گے۔
معتبر ہونے میں
عزتیں بنانے میں
لیکن
اِک خطا کی قیمت کا
اتنا سود بھر دو گے
عزتوں کی چادر کو
چاک چاک کر دو گے

پگڈنڈی پہ چلنا یوں
کہ پاؤں پھسل جائے
گر جو بھول ہوجائے
عمر بھر کی محنت کا
ساری نیک نامی کا
پردہ فاش کر دو گے۔
از ناعمہ عزیز
دو تین دن پہلے سے ہی ویلنٹائن سے متعلقہ شعر و اشعار کا سلسلہ اور ٹی وی پر ویلنٹائن کے موقع کو ترغیب ملنا شروع ہو گئی تو میں نے چھوٹی سے پوچھا یہ ویلنٹائن کو بھی عید کی طرح ہی منانے لگ گئے ہیں، خیر میں سوچ رہی تھی کہ میں ویلنٹائن ڈے پر کچھ نا کچھ لکھوں گی ، پر پھر میں نے سوچا کہ اگر میں نے ویلنٹائن کے حق میں لکھا تو بہت تنقید ہو گی ، پر اس وقت میں تنقید کی پروا کی بنا لکھ رہی ہوں ۔
میں ویلنٹائن کی ہسٹری میں نہیں جارہی ، میں اس جذبے پر لکھ رہی ہوں جو امر ہے، لافانی ہے، جس کا کوئی اختتام نہیں،
میرے لئے محبت لڑکا اور لڑکی کی جذباتی وابستگی کا نام نہیں ہے، محبت کے کئی روپ ہو تے ہیں، آپ کی ماں باپ کی آپ کی پروا کرتے ہیں، آپ کا ہر لمحہ خیال کرتے ہیں آپ کے بھلا سوچتے ہیں ، یہ محبت ہے، بھائیوں کے لئے بہنیں بلا جواز دعائیں مانگتی ہیں ان کی خوشیوں میں خوش اور غٕموٕںمیں دُکھی ہو جاتی ہیں ، یہ محبت ہے، بھائی بہنوں کے سر پر سا یہ شفقت ہو تے ہیں، ان کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں یہ محبت ہے ،
آپ اپنے رشتہ داروں سے ملتے ہیں، ان کی خوشیوں میں شریک ہو تے ہیں ، ان کے دُکھوں میں روتے ہیں، تو آپ کے اندر یہ سب ایک جذبے کے تحت ہو ر ہا ہو تا ہے، یہ پورا ایک نظام ہے، احساسات جذبا ت ہمیں نظر نہیں آ رہے ہوتے مگر وہ وجود رکھتے ہیں ، اور ان کی وجہ سے ہی ایک خاندان کے افراد آپس میں جُڑے ہوتے ہیں،
آپ کے دوست جن سے آپ دل کی بات کہہ لیتے ہیں، آپ کو اُمید ہوتی ہے کہ وہ بات جو آپ نے اپنے دوست سے کہہ دی ، اور اسے کہہ کر آپ کا دل ہلکا ہو گیا ، اب آپ کے دوست کے دل میں رہے گی اور اگر آپ اس سے مشورہ مانگتے ہیں تو یہ سب ایک جذبے کے تحت ہو تا ہے ، کوئی آپ کو اپنا سمجھتا ہے تو آپ کا کوئی کام کرتا ہے، اور اپنا سمجھنے میں خون کا رشتہ ہو یا نا ہو اگر احساس کا رشتہ ہے تو سمجھ لیں کہ وہ محبت ہے ،
آپ کسی بھولے کو بنا کسی وجہ سے راستہ دکھا دیتے ہیں، آپ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتے ہیں، آپ کسی کی مدد کرتے ہیں ، آپ کسی کو تسلی دیتے ہیں، آپ کسی کو اپنا خون دے دیتے ہیں ، آپ کسی زخمی کو ہسپتال پہنچا آتے ہیں، تو ان سب کے پیچھے آپ کے جذبات کا گہرا تعلق ہو تا ہے، اور جذبات میں سب سے برتر جذبہ محبت کا جذ بہ ہے۔
آج کل ہمارے ملک کے جو حالات چل رہے ہیں، جتنی فریسٹریشن ہے، جتنے مسئلے مسائل ہیں، اگر ا ن سب میں سے الگ ہو کر ایک دن ہم کوئی خوشی منا لیتے ہیں تو اس میں اتنی تنقید کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہی کہ ایک لڑکا کسی لڑکی کو لے کر ہوٹل میں جائے کھا نا کھائے ، گلاب کا پھول دے ، اور کہے آئی لویو، میں ا یسی محبتوں پر یقین کی قائل نہیں ہوں ۔
لیکن جذبہ محبت کے وجود سے ہم انکار نہیں کر سکتے ، پر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اُسے مثبت انداز میں نہیں لے سکتے ؟؟؟ کیا ہم اس جذبے کا دن نہیں منا سکتے جس کو لافانی بنایا گیا ؟؟
مجھے اس کو ویلنٹائن کہنے کی ضرورت نہیں ہے ، پر بھر بھی میں کہوں گی گلاب رت کا یہ دن میں نے اپنی دوستوں کے ساتھ منایا، چند لمحے خوش ہو کر مجھے ہرگز نہیں لگا کہ میں کوئی گناہ کر رہی ہوں۔ اور نا مجھے اس پر کوئی شرمندگی ہے۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers