لوگ اکثر کہتے ہیں کہ دنیا میں انصاف نہیں رہا ، ہر کسی پر ظلم ہو رہا ہے، ہر کسی کو اپنا آپ مظلوم نظر آتا، ہر کسی کویہ لگتا ہے کہ میں ہی بیچارہ ہوں ، پر میں نے تو جب بھی مشاہدہ کیا مجھے یہ ہی نظر آیا کہ دنیا میں ہر روز ہر کسی کے ساتھ انصاف ہوتا ہے اور ایسا انصاف ہوتا ہے کہ اس دنیا کی کوئی عدالت ویسا انصاف نہیں کر سکتی، سب سے بڑا جج تو انسان کے اندر بیٹھا ہوتا ہے، جو ہمیں بتا تا ہے کہ یہ نا کرو وہ نا کرو، اگر ایسا کرو گے تو نقصان ہو گا ، اگر ویسا کرو گے تو تباہ و برباد ہو جاؤ گے، ہاں یہ جو(دل) ہم جھوٹا وکیل ہائر کر لیتے ہیں نا دلائل دینے کو اِسے اگر نوکری سے برطرف کر دیا جائے تو سچائی، جھوٹ، ناانصافی اور انصاف ہمیں ٹھیک ٹھیک نظر آنے لگے،
دوسروں پر الزام دھرنا بڑا آسان کام ہے، پیسے نہیں لگتے نا اور مزہ آتا ہے، پر اپنے اندر جھانکنا بڑا مشکل ہے، کیا کریں، ہم تو یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں بُرا کہے تو ہم اپنے آپ کو کیسے بُرا کہہ سکتے ہیں؟؟ مگر ہمارے کہنے یا نا کہنے سے کیا ہوتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ عدالت روز لگتی ہے، انصاف روز ہوتا ہے، وہ جس نے ہمیں تخلیق کیا وہ ماسٹر مائنڈ خود جج کی سیٹ پر بیٹھ کر ایسا انصاف کر تاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، میں اکثر مثال دیا کرتی ہوں کہ اگر آپ کسی کی بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں کا احترام نہیں کرتے، ان کو عزت نہیں دیتے تو پھر اپنے ذہن میں یہ خیال مت لائیں کہ آپ کی بہن ، بیٹی، بیوی، اور ماں محفوظ ہیں، چاہے آپ نے ان کو کتنی ہی مضبوط دیواروں کے اندر رکھ کر ان پر کتنی ہی پاپندیاں کیوں نا عائد کی ہوں، انصاف کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے،
ایک ساس اپنے بیٹے کی بہو بیاہ کر لاتی ہے ، چار دن سُکھ کے گزرتےہیں اور پھر وہی چخ چخ جو ہر گھر کا معمول ہے، اور وہی ساس ایک ماں بھی جو یہ چاہتی ہے کہ اُس کی بیٹی سُکھی رہے، ہنستی مسکراتی رہے، بھئی جب وہ کسی کی بیٹی کو سُکھ نہیں دے گی تو اس کی بیٹی کو دنیا کے کسی کونے سے سُکھ نہیں ملنے والا!
اس لئے کہ انصاف کرنے والا اوپر بیٹھا ہے۔
اگر آپ کسی دفترمیں نوکری کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سات ہیرا پھیری کا کام بھی جاری ہے تاکہ آپ اپنی اولاد کو اچھا کھلا پلا سکیں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں ، اور آپ کا گھرانہ خوشحال رہے ، تو یہ مت بھولیں کہ حرام کھلا کر آپ اپنی اولاد کے خواہشات تو پوری کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اولاد ہی آپ کو دھوکہ دینا شروع کر دے تو پھر آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرانا پسند کر یں ؟؟
دنیا اس اصول پر چلتی ہے کہ اچھادو اور اچھا لو، بُرا دو اور بُرا لو۔
کل ہم بیکن کو پڑھ رہے تھے ، بیکن ایسی خوبصورت بات کہتا ہے کہ بندہ ایک لمحے کو سوچتا ہی رہتاہے ، ٹاپک تھا آف گریٹ پلیس ، گریٹ پلیس ، مطلب آپ کے پاس کوئی اختیار ہونا، کہ جیسے ہمارے زرداری صاحب کے پاس ہے، تو بیکن کہتا ہے کہ جب آپ لوگوں پر اختیار حاصل کر لیتے ہو تو اپنی ذات پر اختیار کھو دیتے ہو، جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، ملک و قوم کا صدر جس کے پاس اتھارٹی ہے، اُسے کوئی چرسی بھی اُٹھ کر گالی دے دیتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں، پر یہ بات جب ایک ایسے بندے کی ذات پر آتی ہے جس کی معاشرے میں کوئی خاص حثیت نہیں تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجا تا ہے ، ہے نا عجیب بات؟
بندہ پوچھے زرداری انسان نہیں ؟ وہ جن ہے کہ سارے کام ایک ہی دن میں کر دے ؟ آپ اپنے آپ کو کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ نے کیا کیا ؟؟ اگر گیس نہیں ہے، بجلی نہیں ہے تو اس میں اکیلا زرداری قصور وار تو نہیں ہے !! یہ جو گیس چور بجلی چور بیٹھے ہیں یہ کس کھاتے میں جائیں گے ؟ اور شاعر کیا خوب فرماتا ہے کہ
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔
ارفع کریم کی مثال ہمارے سامنے ہے ، آج دینا ا ُسے سلیوٹ کرتی ہے، اس پر فخر کرتی ہے، مگر اس کے جو ایک مثال قائم کر دی کہ کچھ کر کے دکھاؤ ، کچھ بن کے دکھاؤ اُسے کتنے لوگ فالو کرئیں گے؟ یا گھر بیٹھ آپ سب گھر بیٹھ کر طعنے کوسنے دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟؟؟
خیر بات انصاف سے نکل کر کہاں آ گئی،
میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ اس دنیا میں کوئی بندہ مظلوم نہیں ہے، ہر کسی کو اس کے کئے کا روز ملتا ہے، اور کیسا خوب انصاف ہے کہ جیسا جرم ویسی سزا!!!
اس لئے اپنے اندر جھانکو، خود کو بہتر کرو، کوئی جو کرتا ہے کرے، لیکن آپ اکیلے ہی دنیا میں آئے تھے اور اکیلے ہی رب کی بارگاہ میں دنیا اور آخرت میں جواب دہ ہو۔
قلزم ہستی میں تو اُبھرا ہے مانند ِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی۔

کسی کے چھوڑ جانے سے،
سانسوں کی مالا کا،
دھاگا کب ٹوٹا ہے،
تو پھر یہ سوگ کیسا ہے!
یہ دل کا روگ کیسا ہے!
یہ کیسی آگ لگتی ہے!
یہ کیسا درد اُٹھتا ہے!
کہ مجھے کو چین نہیں آتا!
چلو اک کام کرتی ہوں،
وہ سب میں بھول جاتی ہوں،
ہاں میں اِک قبر بناتی ہوں،
کہ جس کے مقبرے پر میں،
تمھارا نام لکھتی ہوں،
تمھاری یادوں کے سائے،
میں اس میں دفن کرتی ہوں،
چلویہ فرض کرتی ہوں،
کہ تم کو بھول جاتی ہوں،
مگر یہ سب ناکارہ ہے،
تمھارے بن نا پہلے تھا،
نا اب میرا گزارہ ہے۔

ناعمہ عزیز :)


یہ سال بھی گزر گیا ، جب بھی میری سالگرہ آتی ہے اور جب بھی جنوری کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو میں ایک بار پیچھے کی طرف ضرور نظر ڈالتی ہوں ، ہمیشہ میں ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ’’ کل میں کیا تھی اور آج میں کیا ہوں ‘‘؟؟؟؟
ہاں اس بار جب پچھلے سال پر ایک نظر ڈالی تو اپنے اندر ایک فرق واضح محسوس کیا، اب میں بہت حد تک حقیت پسند ہو گئی ہو ں ، خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنا چھوڑ دیا ہے، پتا نہیں کیوں جو چیز نا ملے ہمیں اُسی میں اتنی کشش کیوں نظر آتی ہے !! مجھے ہمیشہ گلہ رہتا تھا کہ یہ چیز مجھے کیوں نہیں ملی ، لیکن اب میں نے زندگی سے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے، اور شاید سب کو ہی سیکھ لینا چاہئے ، ہم جتنی جلدی یہ بات سیکھ لیتے ہیں ہمارا اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے، لوگ صرف ایک لفظ ’’زندگی‘‘ کو بہت سے مفہوم پہناتے ہیں ، لیکن میرے خیال سے زندگی بی۔ اے کے (بی ) پیپر کے جیسی ہوتی ہے ، بالکل ان ایکسپکٹڈ!!
اور میرے خیال سے زندگی ٖصرف اور صرف compromise and sacrifices
نام ہے ، ہمیں کبھی کسی خواہش پر سکرفائز کرنا پڑتا ہے ، اور کبھی کسی انسان سے، کبھی اپنے آپ سے !!
اگر ہم سیکریفائز اور کمپرومائز کرنا سیکھ جاتے ہیں تو زندگی آسان ہو جاتی ہے، پھر آپ کے پاس کچھ ہو یا نا ہو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، اور اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں جب کوئی چیز قسمت میں ہے ہی نہیں تو پھر افسوس اور دُکھ کیسا؟؟
اور دراصل پچھلے سارا سال میں نے صرف یہی ایک بات سیکھی ہے اور اب مجھے اتنی عادت ہو گئی ہے کہ کچھ خاص فرق نہیں پڑتا!!!
اور دوسری بات ، جو میں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ حال میں خوش رہو، یہ ٹھیک ہے کہ ماضی ایک غذاب ہوتا ہے ، ماضی ایک ایسا اندھیرا کمرہ ہے جس کی تاریکی ہمیں کھنچتی ہے ، مگر اس تاریکی اور تنہائی میں سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ہوتا ، ایسا پچھتاوہ جس سے صرف اذیت ہوتی ہے، اشقاق احمد صاحب ٹھیک فرماتے ہیں ، ہم میں سے بہت سے لوگ ماضی کے پچھتاوں میں زندہ رہتے ہیں اور کچھ لوگ مستقبل کے خوف میں، حال میں رہنے کا ہنر کسی کو نہیں آتا،
اور آپ کسی ایک لمحے کو ،، وہ ایک لمحہ جس میں آپ کو سانس آ رہی ہے ، صرف اس لمحے میں جی کر دیکھیں ، جو گزر گیا وہ تو موت کی طرح ہے جو کہ کبھی واپس نہیں آسکتا ہے ، جو آنے والا ہے ، اُس کے بارے میں کیوں فکر مند ہونا جب آپ کو اپنی سانس کے رک جانے کا بھی علم نہیں ہے ؟؟؟ تو پھر اُس لمحے میں کیوں نا رہا جائے جو ہمارے پاس ہے ؟؟؟ اُسے کیوں نا خوشی سے بھر پور کر لیا جائے !!!
میری طرف سے سال نو سب کو مبارک۔

اور اس دعا کے ساتھ کہ یہ اور آنے والے سب سال میرے سب بہن بھائیوں ، شاکر بھیا، بلال بھیا، عائشہ باقر ، سامعہ، صالحہ سب کے خوشیاں اور کامیاں لے آئیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو صحت و تندرستی دے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے ،
اور آپ سب کی نیک خواہشات کو پورا کرے، اور پاکستان میں امن ہو جائے۔آمین

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers