گو سراپا کيف عشرت ہے شراب زندگي
اشک بھي رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگي
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگي
ہے 'الم' کا سورہ بھي جزو کتاب زندگي

ايک بھي پتي اگر کم ہو تو وہ گل ہي نہيں
جو خزاں ناديدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہي نہيں

آرزو کے خون سے رنگيں ہے دل کي داستاں
نغمہ انسانيت کامل نہيں غير از فغاں
ديدہ بينا ميں داغ غم چراغ سينہ ہے
روح کو سامان زينت آہ کا آئينہ ہے

حادثات غم سے ہے انساں کي فطرت کو کمال
غازہ ہے آئينہء دل کے ليے گرد ملال

غم جواني کو جگا ديتا ہے لطف خواب سے
ساز يہ بيدار ہوتا ہے اسي مضراب سے
طائر دل کے ليے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے

غم نہيں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
جو سرود بربط ہستي سے ہم آغوش ہے

شام جس کي آشنائے نالہء 'يا رب' نہيں
جلوہ پيرا جس کي شب ميں اشک کے کوکب نہيں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عيش و عشرت ہي رہا
ہاتھ جس گلچيں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگي کا راز اس کي آنکھ سے مستور ہے

اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کيوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کي منزل تجھے

ہے ابد کے نسخہ ديرينہ کي تمہيد عشق
عقل انساني ہے فاني، زندہء جاويد عشق
عشق کے خورشيد سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگي ہے ، تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھي دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہيں
روح ميں غم بن کے رہتا ہے ، مگر جاتا نہيں

ہے بقائے عشق سے پيدا بقا محبوب کي
زندگاني ہے عدم ناآشنا محبوب کي

آتي ہے ندي جبين کوہ سے گاتي ہوئي
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتي ہوئي
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادي کي چٹانوں پر يہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھي ، اس کے گوہر پيارے پيارے بن گئے
يعني اس افتاد سے پاني کے تارے بن گئے
جوئے سيماب رواں پھٹ کر پريشاں ہو گئي
مضطرب بوندوں کي اک دنيا نماياں ہو گئي
ہجر، ان قطروں کو ليکن وصل کي تعليم ہے
دو قدم پر پھر وہي جو مثل تار سيم ہے
ايک اصليت ميں ہے نہر روان زندگي
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئي

پستي عالم ميں ملنے کو جدا ہوتے ہيں ہم
عارضي فرقت کو دائم جان کر روتے ہيں ہم

مرنے والے مرتے ہيں ليکن فنا ہوتے نہيں
يہ حقيقت ميں کبھي ہم سے جدا ہوتے نہيں
عقل جس دم دہر کي آفات ميں محصور ہو
يا جواني کي اندھيري رات ميں مستور ہو
دامن دل بن گيا ہو رزم گاہ خير و شر
راہ کي ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گيا ہو آرزو سے گوشہ گير
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمير
وادي ہستي ميں کوئي ہم سفر تک بھي نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھي نہ ہو

مرنے والوں کي جبيں روشن ہے اس ظلمات ميں
جس طرح تارے چمکتے ہيں اندھيري رات ميں

علامہ اقبال۔
جب منہاج القرآن والوں نے سپو کن انگلش کا کورس کرایا تو لیکچر دینے کے بعد سر اکرام صا حب نے ’ رد قادیانیت ‘ کورس کے بارے میں بتانا شروع کیا جس کا اشتہار ڈائیز پر لگا ہوا تھا ، انہوں نے ایک بتایا کہ ان کا ایک دوست تھا جو کہ پا نچویں کلا س سے ان کے ساتھ تھا اور میٹرک انہوں نے ساتھ ساتھ کیا ، ایک ساتھ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے ، گھومتے، پڑھتے، ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہو تے ، کرتے کرتے انہوں نے ایف ایس سی کر لی، سر اکرام کو پتا تھا کہ وہ قادیانی ہے، ایک دن ان کو کسی دوست نے رد قادیانیت کورس کے بارے میں بتایا اور اس کو کرنے کے بعد انہوں نے اپنے اس دوست سے جو کہ قادیانی تھا دوستی توڑنے کا فیصلہ کیا ، اور ہوتا یہ کہ جب بھی وہ ان کے گھر جاتا تو سر نے اپنے گھر والوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر وہ آئے تو اسے کہہ دیا جائے میں گھر پہ نہیں ہوں،ا یک دن اتفاق سے جب وہ آیا تو سر گلی میں ہی کھڑے تھے ، اس نے دیکھ لیا اور پو چھا تو سر نے اسے کہا کہ تم قادیانی ہو اس لئے میں تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، وہ اس بات پر خاصا پریشان ہو ا اور کہنے لگا کہ تم آؤ ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ، سر نے کہا کہ ابھی تو مجھے جانا ہے تم شام کو مجھے مسجد میں ملنا،
شام کو وہ مسجد گیا اور سر کو باہر بلوایا ، تو سر نے کہا کہ تم اند ر آجاؤ،
اس نے جواب دیا کہ ہمارا تمھاری مسجد میں آنا حرام ہے ، خیر سر باہر گئے ،
طے یہ ہوا کہ مذہبی دلائل پر بات ہو گی اور اگر وہ ہار گیا تو آئندہ وہ کبھی سر سے نہیں ملے گا،
اور ایسا ہی ہوا کہ وہ ہار گیا،
سر کے مطابق انہوں نے کئی بار اس کو اپنے گھر کے پاس منڈلاتے دیکھا اور جب سر کی والدہ خرابی طبیعت کی وجہ سے ہسپتال داخل تھیں تو بھی وہ ہسپتال گیا ، سر کی بہن کی شادی تھی اور وہ تب بھی میرج حال کے باہر دیکھا گیا مگر سرسے کبھی نہیں ملا۔۔
یہ تو سر کا نقطہ نظر تھا،
میرا نقطہ نظر ذرا ا س سے مختلف ہے، میں بہت زیادہ مذہب کو پرچار کرنے والی لڑکی نہیں ہوں اس لئے شاید کہ میں نے بھی مذہب کو اتنا ہی پڑھا جتنا وہ میرے کورس کی کتابو ں میں تھا، قرآن پاک پڑھا، کچھ مستند احادیث پڑھیں۔
مگر میں اس بات پر ہر گز اتفاق نہیں کرتی کہ اگر کوئی مسلما ن نہیں ہے تو اسے یہ حق ہی نا دیا جائے کہ وہ آپ سے بات بھی نہیں کر سکتا، مسلمان ، ہندو،سکھ، عیسائی ، یہودی ، کافر، یہ سب ہو نے پہلے انسان ہیں،
کیا انسانوں میں یہ چیز مشترک نہیں کہ وہ آدم کی اولاد ہیں ؟؟؟
کیا یہ چیز مشترک نہیں کہ انکو بھی اُس ذات نے پیدا کیا جس نے ہمیں پیدا کیا؟؟
میری پہچان یہ ہے کہ مجھے اللہ نے پیدا کیا، میں حضرت آدم کی اولاد ہو، میں حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے ہوں،پاکستا نی ہوں، آرائیوں کی برادری سے تعلق ہے ، میرے والد صاحب کا نا م میری شناخت کا سبب ہے ، میری سوچ، میرے اعمال، میری ذات کی شاخت کرتے ہیں۔
مگر اس سب سے قطع نظر ، اور ان سب کا ہونا صر ف اس لئے ہے کہ میں ایک انسا ن ہوں ،
یہ ٹھیک ہے کہ مجھے ان سب باتوں پر فخر ہو نا چاہئے ، مگر یہ سب مجھے کسی ایسے انسان سے بات کرنے کو نہیں روک سکتا جس کا تعلق کسی اور مذ ہب اور عقیدے سے ہو، نبی اکر م ﷺ اگر تبلیغ اسلا م سے قبل یہ سوچتے کہ میرا کافروں سے کوئی تعلق نہیں تو ہم آج مسلمان کیسے ہو تے!!!
اور اللہ تعالیٰ پھر صرف مسلمانوں کو ہی کھانے کو کیوں نہیں دیتا؟؟ ساری دنیا کو کیوں دیتا؟؟؟ چاہے وہ کافر ہیں یا مسلمان!!! جو اللہ کونہیں مانتے وہ انکو بھی دیتا ہے پھر ہمیں یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ ہم صر ف ایک انسان کو اس لئے نظر انداز کریں کہ وہ ہمارے مذہب کا نہیں ہے!
حیرت ہے پاکستان امریکہ سے امداد لے کر کھا تا ہے ، کوئی اس پر فتوی کیوں نہیں دیتا کہ کیوں کافروں سے امداد لیتے ہو!


ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ میری اس بات سے اتفا ق نا کریں ، اور یہ ضروری بھی نہیں، یہ صرف میرا نقطہ نظر ہےمجھے ہر وہ انسان اچھا لگتا ہے جسے ساری دنیا بُرا سمجھتی ہے، اور میں ہر اس انسان کو معاف کر دیتی ہوں جو میری ذات کو نشانہ بناتا ہے، وقتی غصہ اپنی جگہ مگر میری عادت ہی ایسی ہے کہ میں ان لوگوں سے خود جا کر مل لیتی ہوں ، اپنے دل میں کوئی بات نہیں رکھتی ، ابھی کچھ دن پہلے ہی میری چند دوستوں نے مجھے کہا کہ تم میں سیلف رسپیکٹ نہیں ہے۔ ایسا ہی ہو گا ۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کسی نے میرے ساتھ غلط کیا تو یہ اس کا عمل ہے، اور اگر کوئی غلط ہے تو یہ بھی اس کا مسئلہ ہے، لیکن اگر میں اپنی نام نہاد انا، غیرت مندی اور سیلف رسپیکٹ کو لے کے بیٹھی رہوں گی تو مجھ میں اور ا س میں کوئی فرق نہیں رہے گا ایسی نام نہاد مسلمان بننے سے کہ میری ذات سے کسی کو دل ٹوٹے میں انسان بھلی ہوں ۔ اور اسی میں ہی خوش ہوں۔۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers