کہتے ہیں جب ایک سانس آ کر گزر جاتا ہے تو گویا موت کی طرف ایک قدم بڑھ جاتا ہے اور یہاں تو آوے کا آوا ہی گزر گیا ، مطلب پورا ایک سال!! جی ہاں عرف عام میں ہم بائیس سال کے ہو گئے ہیں!! چھوٹے بھیا کے مطابق عقل ابھی گھٹنوں میں ہی ہے، اور میرا اپنا خیال یہ ہے کہ شاید گھٹنوں سے بھی نیچے رہ گئی ورنہ بائیس سالوں میں کچھ نا کچھ تو ترقی مل ہی گئی ہوتی!!
اور بڑے بھیا کے مطابق دماغ میں مغز کے نام پر بھی بھوسا بھرا ہوا ہے اب بھلا ان کو کون سمجھائے کہ میں نے سفارش نہیں کی اللہ سائیں سے کہ دنیا جہان کا بھوسا ہما رے ہی دماغ میں بھر دیں، وہ تو بھلا ہو اللہ سائیں کا کہ بھوسا ہی بھر ڈالا اگر خالی ہی رہنے دیتے تو پھر نجانے ہمیں کیا کیا طعنے اور کوسنے سننے کو ملتے۔
اور میری اماں جان کو خیا ل ہے کہ
’’کام کی نا کاج کی دشمن اناج کی‘‘
کہ ہاں عرف عام میں میری اماں کی باتوں کا یہی مطلب نکلتا ہے پر قسم ہے اس بھوسے کی کہ جو میرے دماغ میں بھرا ہے اور اس عقل کی کہ گھٹنوں سے نیچے ہی رہ گئی کبھی بھی میری إماں نے یہ مختصر سا جملہ بولنے پر اکتفا نہیں کیا ہمیشہ وضاحت دیتیں ہیں
چھوٹی بہن کہتی ہے کہ تم لٹریچر پڑھ کر کیا کرو گی زیادہ سے زیادہ ٹیچر ہی لگ جاؤ گی نا ، آئی ٹی طرف ہی دھیان دو اپنا، دو چار پیسے کما لو گی، یعنی کہ وہی ، جی ہاں آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے ، ہاں نا تو کوئی بات نہیں ہم تو پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں کہ ہمیں بنا عقل کے ہی دنیا میں بھیجا گیا تھا,
جب کہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اس بار سی ایس ایس کا امتحا ن پاس کر کے دنیا کو حیران کر دیں ہاہاہاہاہاہاہا، آخر کو خوابوں میں چھچھرے دیکھنے کا ہمارا بھی من کر تا ہے
اور چھوٹے تو مجھ پہ باقاعدہ رعب ڈالتے ہیں ، ایک دن ہم کمپیوٹر پر ہی بیٹھے نیٹ گردی میں مصروف تھے کہ خالہ کی بیٹی جو کہ پانچویں کلاس کی طالبعلم ہےا ور بیٹا جو کہ چہارم میں پڑھتا ہے نے آ کر ہمیں بڑے رعب سے مخاطب کیا ،
کیا ناعمہ آپی اب اٹھ بھی جاؤ نا ہم نے کارٹون دیکھنے ہیں۔ ہم حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی ، اور بڑی مسکین سے صورت بنائے ان سے سوال کی جسارت کی،
کہ جب عائشہ(چھوٹی بہن) بیٹھی ہوتی ہے تو اسے تو نہیں کہتے اٹھ جاؤ،
تو انہوں سے بڑی شان سے جواب دیا عائشہ باجی سے ڈر لگتا ہے آپ سے نہیں لگتا ،
اور اس دن سے ہم اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ چھوٹوں پر بھی اپنی دھاک نہیں بیٹھا سکے
پورے گھر بھر میں ایک ہی ہماری لاڈلی ہے، صالحہ، جی ہاں بچپن سے اب تک اماں کے بعد اسکا وقت ہمارے ساتھ ہی گزرتا ہے ، ہمارے لاڈ پیار نے اسے بھی اتنا بگاڑ دیا ہے کہ بس ،ا ب تو اماں سے او ر عائشہ سے اس لئے بھی ڈانٹ پڑ جاتی ہے کہ تم نے بگاڑا ہے، اب بھگتو ، مگر اتنا بگاڑنے کے باوجود بھی ہمارے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی،
اور اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پچھلے چھ دن سے وہ اور اس سے بڑی بہن خالہ کہ ہاں گئے ہیں چھٹیاں گزارنے کے واسطے اور ہم تھے کہ تیسرے ہی دن اداس ہو گئے ، پر کیا کرتے مجبوری تھی اپنی اداسی کو الفاظ کی زبان نا دے پائے، کل شام ابا جی موبائل لے کے خالو کو فون کیا کہ ذرا دیر کو اپنی لاڈلی بہن کی آواز ہی سن لیں تو انہوں نے کہ خالہ کے نمبر پہ فون کر لو میں ذرا مصروف ہوں ، اور ابا جی تو پہلے ہی دھمکی لگا چکے تھے کہ خبردار بیلنس ضائع نا کرنا آج ہی کروایا ہے بس پھر کیا تھا ڈرتے مارے ہمت ہی نا ہوئی کہ پھر سے فون کر لیتے ہیں۔
اور آج چونکہ میری سالگرہ کا دن تھا صبح ہی صبح خالہ کو فون آیا کہ صالحہ کو بخار ہو گیا ہے اور ہم نے فورا ہی اپنا بیان دینا مناسب سمجھا کہ دیکھا وہاں جا کر میرے بغیر ادا س ہو گئی،،، اماں صبح سے لینے گئی ہیں اور ہم انتظار کر رہےہیں کہ اب بھی آئی اب بھی آئی ، اور اسی انتطا ر میں دوپہر بھر ہمیں نیند بھی نہیں آئی۔۔ خیر اب وہ آگئی تو ہمیں سکون ہوا ہے،،
اور ہماری دوستوں کے خیا ل ہمارے بارے میں کچھ ایسے ہیں کہ ہم ان کے لئے انٹر ٹینمنٹ کا اچھا ذریعہ ہیں، البتہ انٹر نیٹ پر ہماری بونگیاں دیکھ کر انکو کبھی یقین نہیں آیا کہ میں بظاہر ہنس مکھ سی کڑی زندگی میں کبھی کسی لمحے میں سنجیدہ بھی ہو سکتی ہوں
یہ تو تھی ہماری کچھ نااہلی ، اور لاڈ پیار کی داستان ، اور ایسا کردار نبھاتے نبھاتے آج پورے بائیس سال ہو گئے ہیں
محبت وہ لفظ کہ جسے سن کر دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہو جاتا ہے، وہ جذبہ کہ جو دل کی سر زمین پر ایک طوفان برپا کر دیتا ہے، وہ   مرض کہ جس کو لگ جائے تو لاعلاج قرار دے دیا جا  تا ہے،  محبت وہ حقیقت ہے کہ جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، بہت سے دلو ں کو خوشیاں سے ہمکنا ر ، بہت سے دلوں کو اجاڑ کر بنجر کر دینے ، اور بہت سے دلوں کو زندگی کی قید سے آزاد کر دینے والا یہ جذبہ جس سے شاید ہی دنیا کا کوئی انسان بچ پا یا ہو،
محبت ایک ایسا لفظ کہ جس پر دنیا کے تما م الفا ظ ختم ہیں، بڑے بڑے شاعروں کے اپنی شاعری کو محبت کے نام کر  ڈالا ، بڑے بڑے ادبیوں نے محبت کے نام پر کاغذ سیاہ کر  ڈالے، کتا بوں پر کتابیں لکھی گئیں،
محبت  دن کی طرح ہوتی ہے، جس کے تین پہر ہی محبت کا سرمایہ ہوتے ہیں ،
صبح جو دیکھنے میں بہت بھلی اور خوبصور ت سی لگتی ہے، اسی  صبح کی طرح محبوب کا ساتھ بھی  بہت بھلا اور خوبصورت محسوس ہوتا ہے ، زندگی میں ایک عجیب سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے ، وہ احساس جو  ہمیں ساری دنیا میں منفرد کر دے، وہ احساس کے جو ہمیں ہماری ہی نظر میں برتری کا احساس دلا دے،
پر محبت کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر صبح ہوئی ہے تو دوپہر بھی قریب ہی ہے ، ایسی دوپہر کہ جون کہ جو جون کے تپتے دنوں میں اندر کو جھلسا کر راکھ کر ڈالے گی،
ایسی گرمی کہ جو ہماری تمام تر توانائیوں کو سلب کر لے گی  ہم  سے ہمارا غرور چھین لے گی،
بالکل ایسے ہی محبوب دھوکہ دے یا چھوڑ  کر چلا جائے ( دھوکہ دینے والے اور جھوٹ بولنے والے کبھی محبت نہیں کرتے صرف ٹائم پاس کرتے ہیں)
یا زمانے کی رسموں کے سامنے مجبور ہو جائیں  تو یو ں ہی لگتا ہے کہ جیسے  21ہم جون کی تپتی دوپہر میں بنا سائبان کے کسی سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے بھکاری ہیں، اور یہ دوپہر کبھی ختم نہیں ہوگی ، ہماری فریاد ، ہمارا رونا بلکنا کبھی کام نہیں آئے گا ،
پر ایسا نہیں ہوتا دوپہر بیت جاتی ہے ، شام آ جاتی ہے ، جھولی میں یادیں رہ جاتیں ہیں،دل کسی  مسافر کی طرح ان یادوں کو لئے بھٹکتا ہے پر منزل کا کہیں پتا نہیں ہوتا ،
اور پھر  ہر روز کی طرح وہ دن گزر جاتا ہے ، رات اپنے پر پھیلاتی ہے ، پتا نہیں کیوں یہ رات اتنی مہربان کیوں ہوتی ہے، میٹھی میٹھی یادوں کی کسک میں رات کا اندھیرا  دل کی زمین کو ہولے ہولے سے  کھرچتا رہتا ہے، تنہائی  دل کے دروازے پر چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے ، یوں لگتا ہے زندگی ٹھہر گئی ہو، پر ایسا نہیں ہوتا ،وقت کب کسی کا غلا م ہوتا ہے؟؟ یہ تو آتا ہے اور گزر جاتا ہے ، وقت کب یہ کسی کی پروا کرتا ہے!!!!
زندگی کی دن یوں ہی پورے ہوتے رہتے ہیں او ر آخرکارمحبت اپنے تمام تر، خوشگواریت، ویرانی، تنہائی اور یادوں کے ساتھ دل کے نہاں خانوں میں دفن ہو جاتی ہے۔۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers