”ہمارا معاشرہ برُے انسانوں سے بھرا پڑا ہے“ یہ وہ عام سا فقرہ ہے جو روز مرہ زندگی میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان کبھی بھی بُرا پیدا نہیں ہوتا۔ وہ پاک وصاف اس دنیا میں آتا ہے۔
تو پھر کیا چیز ہے جو اسے بُرا بنا دیتی ہے؟
میرے خیال میں گھر کا ماحول، والدین کی عدم توجہ اور معاشرہ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اور اس بات ثابت کرنے کے میں خود کو ایک مثال دیا کرتی ہوں کہ ایک مسلمان کا بچہ مسلمان ہی بنتا ہے،اسے نماز، روزے ،قرآن کی تربیت دی جاتی ہے۔اور ہندو کا بچہ ہندو ہی بنے گا اسے ہندو ازم کی تربیت دی جائے گی۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہندو کا بچہ ہندو ازم کو نا مانے اور ہمارے مذہب اسلام کا راستہ اختیار کرلے۔ یا مسلمانوں میں سے کوئی ایسا کرے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا نہیں ہوتا ۔ ہوتا ہے جس کو اللہ ہدایت کی توفیق دے اور جیسے سیدھے راستے کی طرف منتخب کرے وہ لوگ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جیسے شیکسپیئر نے نظم لکھی ”آل دی وڑلڈ از سٹیج“
اور اس میں وہ لکھتا ہے کہ انسان اس دنیا میں آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مطلب انسان کیا کردار ادا کے گا یہ لکھ دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات میں اس قدر مانتی نہیں ہوں اور وہ اس لئے انسان کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں سوائے اس کے ارادے کے ، تو اگر انسان ارادے کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تو پھر وہ خود کو کیوں نہیں بدل سکتا؟

بات یہ ہے کہ ایک انسان جوہمیشہ اچھا ہی کام کرتا آیا ہے، اسے بُرا کام کرنا کیسا لگے گا؟
اور وہ انسان کہ جس نے دھوکے فریب کے سوا کچھ کیا ہی نہیں اس کے لیے بھی اچھا کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں عام لوگوں کے خیالات،رویے،خواہشات اور ارادے بہت منتشر ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ ہم اپنی سوچ کولامحدود کر سکتے ہیں جب ہم اپنی ذات کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بات ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔
پھر ایک بُرا انسان اگر بُرائی کر کر کے تھک جائے اور سیدھے راستے کی طرف آنا چاہے تو ہمارا معاشرہ اسے ایک اچھےانسان کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کرتا۔مطلب ایک وہ انسان کہ جو لوگوں کی نظر میں معزز ہے ہمیشہ معزز ہی رہےگا چاہے وہ کتنے ہی غلط کام کرلے اور ایک بُرا انسان ہمیشہ بُرا ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کام کر لے۔
اب ایک ڈاکو اور چور کی مثال لے لیں جن کے نام پولیس والوں فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ وہ چاہے یہ کام چھوڑ بھی دیں مگر جب بھی کوئی واردات ہوگی پولیس پہلے یہ پتا لگائے کہ فلاں ڈاکو اس دن کہاں تھا۔ یعنی جینے نہیں دینی عزت کی زندگی۔
اب اگر ایک چور مسجد میں نماز پڑھتا ہوا مل جائے تو لوگ کہتے ہیں ”نوسو چوہے کھو کے بلی
حج نوں چلی“
اور یہی لوگ ڈرتے ہیں اس بندے سے جب وہ اسلحے کے زور پہ لوٹتا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم برداشت نہیں کرتے موقع نہیں دیتے کسی کو کہ سنور جائے۔ یہاں پولیس والے،بیوروکریٹ،اپوزیشن،حک ومت سب ہی بہروپئے ہیں سب ہی بُرے ہیں مگر ایک وہ انسان جو کہ ہے ہی چور اس میں کوئی بہروب نہیں ہمارے لئے ایک وہ ہی بُراہے۔
لوگ بڑے آرام سے غلط کام کرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر اگر کو غلط بندہ اٹھ کے اچھا کام شروع کر سے تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ”آکی کر دا اے“؟
اللہ ہمیں برداشت کی توفیق دے۔
آمین
اے دوست
اگر رشتہ نبھانا ہے
تو پھر یہ سوچ لینا کہ
تعلق ٹوٹ نا جائے
کوئی بھی روٹھ نا جائے
میری اک بات سن لوتم
جوباتیں تنگ کرتی ہوں
تمھارا دل جلاتی ہوں
اگر کوئی شکایت ہو
کسی کی کوئی غلطی ہو
تو پھر تم چپ نہیں رہنا
میری بس التجا یہ ہے
جو دل میں ہو وہ سب کہنا
حیاتی چار دن کی ہے
جو ہنس کے بیت جاتے ہیں
وہ لمحے یاد رہتے ہیں
مگر خاموش رہنے سے
اکیلے نیر بہانے سے
یوں اپنا دل جلانے
کسی کا کچھ نہیں جاتا
یہ شکوے غم بڑھاتے ہیں
اور یوں
تعلق ٹوٹ جاتے ہیں۔
ناعمہ عزیز

کبھی جب بہت د ہو جاتے ہیں تو دل کرتا ہے کچھ لکھ ڈالوں اور میرے دل کا بو جھ ہلکا ہو جائے ۔ میں سوچتی ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسا بنایا ہے ۔ میں اس اصول سے ہمیشہ ہی باغی رہی ہوں کہ انسان کو جب کوئی مسئلہ ہو تو وہ کسی سے کہہ دے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسطرح اس مسئلے کا حل نکل آتا ہماری پریشانیاں آسان ہو جاتیں ہیں  ، اور ہم جلدی اس مسئلے سے چھٹکارا پا لیتے ہیں ،
مگر میرا طریقہ اس سے کچھ الگ ہے، کہ انسان کوخود اپنے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے ، ( اور آپ میں سے اکثر کی رائے یہ ہوگی کہ اس ضمن میں انسان چاہے گھٹ گھٹ کر مر جائے مگر اسے اپنی پریشانی سے نکلنے کی کوئی راہ ہی نا ملے)
مگر میرا چھوٹا اور کم عقل دماغ مجھ سے یہی کہتا ہے کہ انسا ن اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اکیلا ہی جائے گا اور ایک انسان  اگر اپنے آپ کو مضبو ط کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ خود کو پیش آنے والی مشکلات کو اپنی ذات تک محدود رکھے ان کا جواں مردی سے مقابلہ کرے اور مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اس طرح انسان جذباتی طور پر مضبو ط ہوجاتا ہے۔
پتا نہیں مجھے ٹھیک لگتا ہے یا غلط!!!!

مگر بارہا اپنی مشکلات کو اپنے تک محدود رکھ کر اکیلے میں ان کا حل تلاش کر نا اور باقی سب کے ساتھ بیٹھ کر زبردستی ہنسنا اور اپنے ذہن کا بوجھ کم کرنے کے چکر میں اپنی چھوٹی بہن کو تنگ کرنا مجھے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ میں اس اصول سے باغی نہیں ہوں بلکہ اپنے آپ سے باغی ہوں۔
اکیلے بیٹھ کر  اپنے آپ سے لڑنا اور خود کومصروف کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بنانا کہ مجھے ا ن خیالات سے نجات مل جائے یہ سب مجھے کسی بھی اذیت سے کم نہیں لگتا۔
اور سونے پہ سہاگا کہ جب کوئی مشکل بھی حل نا ہو رہی ہو تو بس پھر میں چڑچڑی ہو جاتی ہوں ،  ہر ایک سے الجھنا اور اپنے آپ قابو رکھنے کے لئے تمام طریقے آزمانا ۔ پر مشکل تو مشکل ہے جب تک حل نا ہوجائے آرام کیسے آئے ۔
اور بس پھر میں دوست کی طرف چلی جاتی ہوں کہ اور اسے کہہ دیتی ہوں کہ یار  اس مصیبت سے میری جان چھڑا دےJ
مطلب کہ میں اس اصول سے بغاوت کرتے ہوئے بھی اس اصول پر عمل پیرا ہوتی ہوں جب اپنے آپ سے تنگ آجاتی ہوں۔ بارہا  خود کو سمجھایا ہے کہ نا ایسا کیا کروں مگر وہ ناعمہ ہی کیا جو باز آجائے!!!

اردو سیارہ پر بلاگ منتقل ہوئے کافی روز گزر گئے ہیں کچھ لوگ ایسے ہیں کو مجھے جانتے ہیں اردو محفل کی وجہ سے پر جو مجھےسے واقف نہیں ہیں سوچا ان کے لئے اپنا چھوٹا سا تعارف چھوڑ دوں۔۔
میرا نام ناعمہ عزیز ہے، ناعمہ عزیز ہمشیرہ شاکر عزیز۔۔ شاکر بھائی مجھ سے بڑے ہیں
گریجویشن مکمل کر چکی ہوں اور اس سال ماسٹزز کرنے کا ارادہ ہے۔ باقی اللہ کو جو منظور۔
ویسے میں بولتی بہتتت زیادہ ہوں پر اب چونکہ بڑی ہوگئی ہوں اس لئے کوشش یہ بھی ہے کہ ذرا زبان کو قید کر کے رکھوں۔ 
لوگوں پہ تنقید کرنا مجھے بالکل پسند نہیں ہے ۔ اور اپنے بارے میں کیا بتاؤں؟؟؟؟
شاعری کا شوق ہوا کرتا تھا پر اب ذرا کم ہے ، صوفیانہ کلام صوفیانہ شاعری میں گھس گھس کے اپنا چھوٹا سا دماغ صرف کرتی رہتی ہوں کہ سمجھ سکوں ۔ 
بس اتنا ہی کافی ہے۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers