ساری پاکستانی اور ہندوستانی قوم پاگل ہوئی پڑی تھی 30 مارچ کو سیمی فائنل دیکھنے کے لئے، ہندوستا ن میں پوجا پاٹ اور پاکستان میں نمازیں ، نفل اور دعاؤں میں ساری لوگ مشغول عمل تھے۔ جب بھارتی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ یہ دعا کی جاتی تھی کہ آؤٹ ہو جائے، اور جب پاکستانی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ دل دھڑکتا تھا کہ آؤٹ نا ہو جائے اور جب ایسا کو ئی چانس نظر نا آتا تو دعا کرتے کہ چوکا ، چھکا لگ جائے۔
پر جب آفریدی آؤٹ ہو گیا تو میں تو مایوس ہو کر سو گئی کہ بس اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب تو کو ئی معجزہ ہی ہے جو ان کو ہارنے سے بچا لے۔
دراصل پاکستان بھارت کا میچ پاکستانیوں کے لئے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھا، ہم لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک کے اپنی نجی زندگی کے مسائل کو بھول کر خوشی کا بہانہ چاہتے تھے، دنیا چپ تھی، جب کوئی چوکا لگتا تو سیٹیوں ، شور اور ہوائی فائر نگ کی آواز سنائی دیتی ورنہ سڑکوں پہ گاڑیوں کے ہارن بھی عام دنوں سے کم ہی سنائی دے رہے تھے، ہو کا عالم تھا، اور یہ ہمارے جذبات تھے، توقعات تھیں ، ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان اس بار عالمی کپ جیت کر ہی آئے گا۔ اور پورے ملک میں خوشی پھر سے لوٹ آئے گی۔

پاکستان کے ہارنے پر سب پاکستانیوں کو دکھ ہوا ، سب ہی اداس تھے میں خود دل گرفتہ تھی۔ مگر ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بات وہی ہے کہ ہمیں تو ہماری قسمت کا ہی ملنا تھا مل گیا۔ اب ہم خوش ہو ں یا اداس اس سے کیا فرق کسی کو نہیں پڑنا ہمارا ہی نقصان ہو نا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ
’’خوش نصیب وہ نہیں ہوتا جس کا نصیب اچھا ہوتا بلکہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہو۔‘‘
دنیا امیدپہ قائم ہے اور انسانوں کی زندگی کا انحصار بھی امید پر ہے اگر امید نا ہو پے در پے آئی ناکامیوں اور نقصانات پہ ہم مر جانے کو ترجیح دیں۔
اور ہم آج بھی اسی امید پہ قائم ہیں کہ اب نہیں تو اگلی بار ہم عالمی کب جیتیں گے ہم دنیا کو باور کروایں گے کہ ہم باصلاحیت لوگ ہیں۔
ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے کسی ایک فریق کو تو ہارنا ہی ہے۔
خیر میں تو بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جیسے میں نے میچ دیکھا ہی نہیں
ساری پاکستانی اور ہندوستانی قوم پاگل ہوئی پڑی تھی 30 مارچ کو سیمی فائنل دیکھنے کے لئے، ہندوستا ن میں پوجا پاٹ اور پاکستان میں نمازیں ، نفل اور دعاؤں میں ساری لوگ مشغول عمل تھے۔ جب بھارتی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ یہ دعا کی جاتی تھی کہ آؤٹ ہو جائے، اور جب پاکستانی کھیل رہے تھے تو ہر بال پہ دل دھڑکتا تھا کہ آؤٹ نا ہو جائے اور جب ایسا کو ئی چانس نظر نا آتا تو دعا کرتے کہ چوکا ، چھکا لگ جائے۔
پر جب آفریدی آؤٹ ہو گیا تو میں تو مایوس ہو کر سو گئی کہ بس اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب تو کو ئی معجزہ ہی ہے جو ان کو ہارنے سے بچا لے۔
دراصل پاکستان بھارت کا میچ پاکستانیوں کے لئے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھا، ہم لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک کے اپنی نجی زندگی کے مسائل کو بھول کر خوشی کا بہانہ چاہتے تھے، دنیا چپ تھی، جب کوئی چوکا لگتا تو سیٹیوں ، شور اور ہوائی فائر نگ کی آواز سنائی دیتی ورنہ سڑکوں پہ گاڑیوں کے ہارن بھی عام دنوں سے کم ہی سنائی دے رہے تھے، ہو کا عالم تھا، اور یہ ہمارے جذبات تھے، توقعات تھیں ، ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان اس بار عالمی کپ جیت کر ہی آئے گا۔ اور پورے ملک میں خوشی پھر سے لوٹ آئے گی۔

پاکستان کے ہارنے پر سب پاکستانیوں کو دکھ ہوا ، سب ہی اداس تھے میں خود دل گرفتہ تھی۔ مگر ہم حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بات وہی ہے کہ ہمیں تو ہماری قسمت کا ہی ملنا تھا مل گیا۔ اب ہم خوش ہو ں یا اداس اس سے کیا فرق کسی کو نہیں پڑنا ہمارا ہی نقصان ہو نا ہے۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ
’’خوش نصیب وہ نہیں ہوتا جس کا نصیب اچھا ہوتا بلکہ خوش نصیب وہ ہوتا ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہو۔‘‘
دنیا امیدپہ قائم ہے اور انسانوں کی زندگی کا انحصار بھی امید پر ہے اگر امید نا ہو پے در پے آئی ناکامیوں اور نقصانات پہ ہم مر جانے کو ترجیح دیں۔
اور ہم آج بھی اسی امید پہ قائم ہیں کہ اب نہیں تو اگلی بار ہم عالمی کب جیتیں گے ہم دنیا کو باور کروایں گے کہ ہم باصلاحیت لوگ ہیں۔
ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے کسی ایک فریق کو تو ہارنا ہی ہے۔
خیر میں تو بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جیسے میں نے میچ دیکھا ہی نہیں
میں یقین رکھتی ہوں کہ ہر انسان کو ہر لمحے ہر دن اور زندگی میں اُتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ اُس کی قسمت ہو، تقدیر تو رب کی ذات نے لکھ دی ہے مگر تدبیر ہمیں ہی کرنی ہے۔ اور ہم کرتے ہیں ، ہر صبح سے شام تک ہم تدبیر کرتے ہیں، ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ، کس راہ پہ چلنا ہے کس پہ نہیں چلنا ، کس کو خوش رکھنا ہے کس سے بات تک نہیں کرنی۔
مگر اس سب کے باوجود ہم وہ بھی کرتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے ، ہم وہ کام بھی کرتے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہو تا ، ہم جانے انجانے میں لوگوں کو دکھ بھی دیتے ہی اور پھر بھول جاتے ہیں ہم اُس راہ پہ بھی چلتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی،
بقو ل علامہ اقبال
’’ اگر راستہ خوبصورت ہے تو پتا کرو کس منزل کو جاتا ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہے تو راستے کی پروا مت کرو۔‘‘
پر ہم یہ کہاں سوچے ہیں؟؟؟؟ اگر ہم ایسی باتوں پہ عمل کرنے لگ جائیں تو کیا زندگی آسان نا ہو جائے!!
پر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے غلام ہیں، ہر وہ کام کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کا کسی نا کسی کو نقصان ضرور ہوتا ہے۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہمارے اندر بھی ایک جج براجمان ہے ، جونا بکتا ہے نا جھکتا ہے ، عین ٹائم پہ آپ کے دماغ میں الارم بجے گا اور ٹک ٹک ٹک ،،آپ کو بلایا جائے گا آپ کو مجرم بنا کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ٖ ثابت کیا جائے گا ’’غلط کیا ،غلط کیا‘‘ پھر فیصلہ بھی ہوجائے گا اُسی وقت!!! سز ا ملنے میں دیر لگے گی ، تب تک آپ خود کو بہلائیں گے ، تسلی دیں گے کہ نہیں سب ٹھیک ہے، آپ کے اندر بے سکونی رہے گی ہلچل رہے گی، پھر ایک دن کچھ ویسا ہی سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا جو آپ نے کسی اور کے ساتھ کیا ہو گا ، پھر جا کے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نےغلط کیا تھا ۔

پر یہ جو سب میں نے لکھا یہ سب اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ضمیر ابھی زندہ ہوں ، جو لوگ ٖغلطی، گناہ، اور دھوکے دے کر اپنے دل کو کالا کر دیتے ہیں انہیں ایسا کوئی احساس نہیں کیوں کہ اُن کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے اُن کے اندر ایک شیطان براجمان ہو جاتا ہے جو ہر فیصلہ ان ہی کہ حق میں کرتا ہے اور وہ بڑے فخر سے سر بلند کرکے کہتے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں ، نا صرف یہ بلکہ وہ آپ کو الزام دیں گے آپ پہ چڑھائی کریں گے کہ آپ غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک ہی بار چوٹ لگتی ہے جو ان کی روح کو اندر تک گھائل کر دیتی ہے، پھر جب وہ اپنے آپ سے ملتے ہیں تب اُن کو احساس ہوتا ہے۔پر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔

ہم دنیا میں آئے ہیں ایک دن جانا بھی ہے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اُسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔
با با آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ؟شہر کا رخ بھی کرتے ہیں؟
میں نے آنکھیں موندے بظاہر تھکن سے چُور نظر آنے والے بابا سے پوچھا ۔
’’ ہماری کوئی ایک جگہ مقرر نہیں ہوتی ۔ اور ہمیں خؤد بھی یاد نہیں رہتا کل کہاں تھے ور آج کہاں ہیں‘‘
ان کی آنکھوں نے سرخ ڈوروں نے میرے اندر کچھ خوف سا جگا دیا۔
’’ ہم جاہ جاہ پھرتے ، نگر نگر گھومتے اور پھر چرسا بھر زمین کی چادر اوڑھے سو رہتے ہیں۔ سکون کہیں بھی نہیں ہوتا ۔ بس اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس تک پہنچنے کے لئے اندر دھیان لگانا پڑتا ہے۔ یہ جو شخص مٹی کی چادر اوڑھے پڑا ہے نا ۔ برسوں پہلے ایک عام شخص تھا ۔ روٹی ، کپڑا، مکان کے چکر میں ذلیل و خوار ہونے والا شخص ۔ یہاں آیا تو اپنی پریشانیؤن کا حل سو چنے کو اسی پہاڑ پر بیٹھا۔ اور اسے ان کاحل مل گیا اس نے اپنے اندر دھیان لگایا ۔ اور فطرت کی گہرائی میں بھکرے سکون نے اسے اندر کے دھیان میں پکا کر دیا ۔ اور پھر اس نے اس دھیان کو ٹوٹنے نا دیا ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا بس کچھ بس یہیں کا ہو رہا ۔۔۔۔۔ اب تک یہیں ہے‘‘


لیکن کیا ، دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے یوں گھبرا کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کے نام کی مالا جپتے رہنا بہت آسان نہیں‘‘
’’کم فہم انسان ہے نا تو عشق کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ عشق کی دیوانگی کو کیا سمجھے گا، عشق پہ کسی کا زور ہوتا تو دنیا میں کوئی دیوانہ نا ہوتا، تو عشق کو آسان سمجھتا ہے۔ ایک بھی منزل عبو کر کے دکھا تو تجھے جانوں۔ ہر منزل پہ انگنت کشٹ ہیں اور ساری بات نصیب کی ہے۔ کسی کے نصیب میں عشق ہے اور کسی کے نہیں ‘‘۔


میں بابا کے لہجے میں اپنے لئے کرختگی دیکھ کر سہم سا گیا۔
یوں لگا جیسے میں نے عشق کی تو ہین کر کے بابا کا دل دکھایا ہے۔
’’ بابا عشق کا یقین کیسے آتا ہے۔‘‘
’’یقین، میں تیری کج فہمی پہ حیران ہوں کیا تو نے زندگی میں کبھی عشق نہیں کیا۔ کسی بندے سے بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ جو عشق کی پہلے منزل ہے، تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ عشق تو خود اپنا یقین ہے۔ جب یہ ہو جائے تو اس سے بڑا یقین اور کوئی نہیں رہتا‘‘۔
مجھے اپنے گئے گزرے عشق پہ حقارت ہونے لگی وہ جوہمیشہ بے یقینی کا شکار رہا۔ عین وصل میں ہجر کا ڈر۔۔۔ بہار کی دہلیز پہ خزاں کے خشک پتوں کا اُدھم، مجھے یوں لگا جیسے میرے سامنے ایک ٹھنڈے پانی کا جھڑنا ہے اور میں اس کے قریب پیاس سے مر رہا ہوں۔ میں سوچنے لگا۔

محبت اسقدر بے سکونی اور بے یقینی کیوں دیتی ہے۔ پھر بابا سے نظریں ملانے کی بجائے سورج کی زائل ہونے والی توانائیوں کی آسمان پر بے بسی کا نظارہ کرنے لگا جیسے کوئی اپنے زوال کے تھکے ہارے سفر کو مائل ہو۔
میں بابا سے اور بھی باتیں کرنا چاہتا تھالیکن عشق کے بارے میں اپنی ناسمجھی اور بے خبری کی وجہ سے ڈرتے ہوئے کوئی اور سوال نا کر سکا ۔ میرا دھیان عشق کے سبق سے ٹوٹا نا تھا ۔ کب سے بابا کو خاموشی سے ذکرِ الہٰی کرتے دیکھ رہا تھا۔ بابا نے بہت وقت بیت جانے کے بعد آنکھیں کھولیں اور بولے۔
’’ تو سمجھ رہا ہے کہ تیرا دھیان ٹوٹا نہیں ، تو سمجھ لے کہ تیرا دھیان کبھی عشق سے جڑا ہی نہیں۔ کچی مٹی پہ چھڑکاؤ کرو تو ہرجاہ بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی ہے۔ اس خوشبو کے لئے مٹی ہزاروں سال سے چلچلاتی دھوپ میں جلتی بلتی چلی آ رہی ہے۔ وہ اگر دھوپ میں نا جلتی تو پانی چھڑکا ؤ اس کے وجود میں مہک کے بھانبھڑ نا مچاتا۔ من کو عشق کی خوشبو دینے کے لیے تن کو دکھوں اور آزمائشوں کی دھوپ میں جلانا پڑتا ہے۔ تو دنیا کے مقام مرتبے کا دھنی ، تیرا گزر عاشق کے بے سروسامان راستے سے کہاں؟؟
دیکھ بچے ہر روح تلاش کے سفر میں ہے۔ حقیقت کے باطن میں چھپے اسرار کی تلاش ، محدود سے لا محدود کے رستے کی تلاش، منظر جو سامنے ہے بڑا دلکش ہے، دلفریب ہے لیکن منظر جو پوشیدہ ہے وہی اصل ہے۔ منظر سے دھیان ہٹا کر پسِ منظر کو کریدنا اتنا آسان نہیں جتنا تو سمجھتا ہے۔ ظاہر کے بدن کو چیر کر باطن میں اترنا اتنا سہل نہیں جتنا تیرے گمان میں ہے۔ ٕمحدود کت سکون کو چھوڑ کر لامحدود کے اضطراب میں قدم رکھنا اتنا آسان ہوتا تو سب جستجو کرنے والے بامراد ہو جاتے۔ محدود سے آگے دیکھنے کے لیے وہ نظر چاہیے جو عشق ہی دے سکتا ہے۔ عشق ہی وہ طاقت ہے جو ظاہر کو چیر کر باطن میں اتر جانے کو اسلوب سکھاتی ہے۔ ہاں واحد نام عشق کا قائم ۔۔ باقی ہر اک شے فانی۔‘‘

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers