جب میں میٹرک میں تھی تو ہم اکثر اردو کے پیراگراف کا انگلش میں ترجمعہ کیا کرتے تھے ، ان میں ایک پیراگراف کی لائن مجھے بہت اچھی لگتی تھی جو مجھے ابھی تک یاد ہے،"زندگی کے نشیب و فراز میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب انسان نااُمید ہوجاتا ہے ، مگر اب جا کے مجھے اس کا مطلب سمجھ میں آیا ہے ۔
ہمارے ملک کے موجودہ حالات جن میں، دہشت گردی ، قتل و غارت ، ڈاکہ زنی ، چوری چکاری، دھوکہ دہی بڑی عام باتیں ہیں ۔ اس کے علاوہ مذہب سے دوری اور لوگوں کے رویے ہمیں مایوس کرنے کو کافی ہیں۔ ان حالات میں جب انسان گھر سے نکلتا ہےتو اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ زندہ واپس بھی آئے گا کہ نہیں ، کسی بم دھماکے کی نذرہو جائے گا ! یا راستے میں لوٹ لیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سب انسا ن کو مایوس اور ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، ایسے میں کس طرح نوجوان نسل کی میں کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی ۔ غریب لوگ اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ مہنگائی نے سب کو متاثر کیا ہے۔
لیکن پھر بھی امید کے سہارے ہی دنیا قائم ہے ۔ کل میں ایک ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی تو مجھے ایک بات بہت اچھی لگی، . ضروری یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں خوش رہنے کے لیے کتنی آسائشیں درکار ہیں بلکہ ضروری یہ ہوتا ہے ہم کتنی آسائشیوں میں خوش رہنا سیکھ جاتے ہیں"! اور اگر ہم اس بات کو یوں لے لیں کہ ضروری یہ نہیں کہ ہم مایوس کتنے ہیں ؟ ہمارے اردگرد مشکلات اور الجھنوں کا گھیر ا کتنا تنگ ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ان مشکلات اور الجھنوں کے جال میں ہم ایک چھوٹی سی خوشی کو کس طر ح تلاش کرسکتے ہیں؟ زندگی شطرنج کی بازی کی طرح ہے۔ جب سارے راستے بند ہوجائیں تو ایک راستہ ضرور کھلا ہوتا ہے اور اُسی ایک راستے کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں اپنے ذہین کی تمام کھڑ کیاں کھلی رکھنی ہو تی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں" ایک در بند سو کھلے" ہم زندگی میں اکثر اس لیے مایوس ہوجاتے ہیں کہ ہم اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں ، اس کی ہر خواھش کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ انسان اگر نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے لگے تو نفس بہت طاقتور ہوجاتا ہے اور انسا ن نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ اور اگر ہم نفس کو پسپا رکھیں اور خو د کو مار دیں تو ہم انسا نیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتے ہیں۔
مگر آج کا انسان! مایوس ہوکر اپنی ہی زندگی کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ مر کر وہ تمام حالات سے نجات پا لے گا۔ میں نے محفل پہ ہی "کھیل ہی کھیل کے ایک دھاگے میری ڈائر ی کا ایک ور ق " پہ بوچھی اپیا کا ایک پیغام پڑھاتھا۔ جو کہ شاید کچھ ایسے تھا
" بے بسی کے دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتیں ہیں ۔ ناکام ی کے بارے میں نا سوچا کرو ایسی سوچیں انسا ن کے ذہن کو کمزور اور لاغر بنو دیتیں ہیں ۔ ناکامی کو نصیب سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے جس کا دائرہ مہکنے میں وسیع اور سمجھنے میں محدود ہوتا ہے"
مگر ان سے باوجود ہم انسا ن ہیں اور ہم مایوس ہوتے ہیں ۔ میں خود بھی مایوسی کا شکار ہوتی ہوں اور مایوسی بھی انتہا کی۔ مگر ایسے میں جب لوگوں کے رویے مجھے مایوس کر دیں اور مجھے دنیا میں کو ئی اپنا نا نظر آئے اور مجھے لگے کہ میں کسی سے اپنی پریشانی نہیں کہہ سکتی ہوں اور مجھے لگے کہ مجھے میری طرح کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ نہر میں بھی اگر پانی اس کی اوقات سے زیادہ ہوجائے تو اس کے کناروں سے باہر آنے لگتا ہے ۔ اسی طرح وہ سب کچھ جب میری آنکھوں سے عیاں ہونے لگے ، تو میں شیشے کے سامنے بیٹھ جاتی ہوں اور اپنی پریشانی اپنی ذات سے کہتی ہوں۔ یا شام کو ڈوبتے سورج کے وقت اکیلی چھت پے جا کے آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتی ہوں ۔ کچھ دیر فرش پہ لکیریں کھنچتی ہوں ۔ پھر دیرتک ان کو خالی ذہین کے ساتھ تکتی رہتی ہوں ، پھر اپنی ذات کا محاصر کرتی ہوں اپنے اعمال کا جائزہ لیتی ہوں۔ ناکامی اور مایوسی کے بادل ذہن میں اندھیرا کر دیتے ہیں اور پھر بارش ہونے لگتی ہے، رب کو پکارتی ہوں ، اس سے گلہ کرتی ہوں شکوہ کرتی ہوں ، پھر خودہی معافی مانگتی ہوں، پھر دعا کرتی ہوں اور دعا میں صرف سکون مانگتی ہوں ۔ یا میں نمازپڑھتے ہوئے ہر سجدے میں روتی ہوں۔پتا نہیں کہاں سے آجاتے ہیں اتنے آنسو! اور حیر ت کی بات ہے میرا ذہین ہلکا ہو جاتا ہے ۔ پر یہ سب میں کسی کے سامنے نہیں کرتی کہ لوگ مجھے پاگل خیال کریں گے۔ شاید آپ میں سے بھی کو ئی شیشے کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے والے کو اکثر پاگل ہی سمجھے۔
مگر سچ تو یہ کہ میں اپنی نفسیات جانتی ہوں اور مجھے پتا ہے کہ میں نے ناعمہ کو کیسے قابو میں رکھنا ہے ، اور کیسے کسی انتہائی قدم سے کسی غلط راستے سے روکنا ہے۔
یہ تو رہی میں ، آپ کیسے اپنے آپ کو قابو کرتے ہیں؟
زندگی کتنی غیر اہم سی ہوگئی ہے کوئی وقعت ہی نہیں رہی۔ قتل کر دینا کتنی آسان سی بات ہے، میں سوچتی ہوں کہ ہم آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ اخلاقی قدریں ختم ہو کے رہ گئی ہیں ، کوئی کسی کا آسرا نہیں ہے، بھائی بھائی دشمن بن گئے ہیں یہاں اپنوں کو اپنوں سے ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو کیا یہ وہی پاکستان ہے جو علامہ اقبال کا خواب تھا ! جس کی تعبیر کا سہرا قائداعظم کے سر تھا! آج بھی اقتدارمیں آئے ہوئے لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں ، کوئی گھر بیٹھ کر ، کوئی میڈیا پر ، کوئی سڑک پر احتجاج کرتا ہے تو کوئی فٹ پاتھ پہ ہی بیٹھا کوستا رہتا ہے، تو کیا ہم اس پاکستان سے جہاں اپنے اپنوں کے دشمن ہیں اُس ہندوستان میں اچھے نہیں تھے جہاں غلامی کی زندگی تھی پر اپنوں کا خیال تھا احساس تھا ، غلام ہو کر بھی ایک تھے ، ہم کیا باور کروا رہے ہیں دنیا کو کہ ہم نے اس لئے آزاد ملک حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم آرام اور سکون سے اپنوں کے ساتھ لڑ سکیں اور کو قتل کر سکیں۔ کیوں مر گئے ہیں ہمارے احساس، جذبات، دوسروں کے لیے محبتیں کیوں ختم ہو گئیں ہیں! ہر طرف مایوسی کا عالم ہے ۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ عید الضحی سے چار دن پہلے بکرا لا کر پال لیں تو عید پہ اسے قربان کرتے ہوئے گھر اس کونے میں جہاں اس کی چیخوں کی آواز نا آئے جا کر آنسو بہا تے ہیں ۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جن کو کسی انسان کو قتل کرتے ہوئے ذرا بھی دکھ نہیں ہوتا ! یہاں قاتلوں کو سلیوٹ کیے جاتے ہیں! یہاں بے بس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ! یہاں بہن بیٹوں کو عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ تو پھر پاکستان اور ہندوستا ن میں کیا فرق ہے؟ کونسے مسلمان ہیں ہم کہ جنت کی خاطر لاکھوں لوگوں کو بم بلاسٹ میں اڑا دیتے ہیں ۔ اب پاکستان میں کچھ نہیں ہے، جہاں بجلی ، گیس ، آٹا ، چینی، حتی کہ ٹماٹر پیاز تک بہران ہے وہاں ہی اخلاقی روایات ، اخلاقی اقدار، جذبات ، احساسات کا بحران ان سب سےکہیں بڑھ کر ہے۔ اور ہم یہ سوچ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ یہی ہے مقدر میں! یا پھر پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک کو تر جیح دیتے ہیں۔ مجھے گلہ نہیں کرنا چاہئے شاید کیوں کہ ہم سب ہی اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے ۔
اور شاید اب اسے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا کہ
منیر اب مان لے تو بھی مقدر کی حقیقت کو
جو ہے وہ بھی ضروری ہے جو تھا وہ بھی ضروری تھا۔
واسلام۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers