گزرا سال اور دسمبر۔

دسمبر پھر سے لوٹ آیا ہر سال آتاہے ، اور تب پتا چلتا ہے ایک سال اور گزر گیا ،زندگی کی مدت کچھ اور کم ہو گئی ہے۔ بہت سی نادانیاں اس سال بھی کی ہوں گی۔ اور وقت نے کچھ پختگی بھی دے دی ہے سوچ کو، جینے کا کچھ ڈھنگ اور آگیا ہے۔ کچھ برداشت اور مل گئی ہے ۔ کچھ دنیا کے رنگ اور دیکھ لئے ہیں، اور بہتتتتت سی پیاری یادیں اس سال سے وابسطہ ہیں جو یہ لے کے چلا جائے گا کبھی نا لوٹ کر آنے لے لئے، پر وہ خوبصورت سی یادیں دل کے گلدان میں پھولوں کی طرح ہمیشہ تازہ رہیں گی۔ خوشبو دیں گی اور کبھی لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر کر لمحوں کو خوبصوت کر دیا کریں گی اور کچھ ایسی بھی تلخ ہیں کہ جو دل دکھا بھی گیئں اور یہ سمجھا بھی کہ آئندہ ایسا نا ہو کبھی۔ اب نیا سال آنے والا ہے پر ڈر لگتا ہے کہ اگلا سال کیا دے گا؟ کیا چھین لے گا؟زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی وہ مثبت ہو گی یا منفی۔ ایک عزم لئے کہ اب کے پرانی غلطیوں کو نہیں دہرانا۔ اب کی بار کچھ نیا کرنا ہے۔ اب کی بار کچھ ایسا کرنا ہے کہ اگلے سال دسمبر میں جب ضمیر کی عدالت لگے اور میں کٹہرے میں کھڑی ہوں، تو شرمندگی سے اپنی ہی نظروں میں نا گر جاؤں۔ ایسا کوئی گناہ نا ہو کہ جو ضمیر کی عدالت میں ناقابل معافی قرار دے دیا جائے۔ اور میں ایک اور سال کی مجرم بن جاؤں۔ کچھ ایسا نا ہو کہ کسی کا دل دکھے۔ کچھ ایسا نا ہو کہ کوئی روٹھ جائے۔ کچھ ایسا نا ہو کی غلطی کر کے تسلیم نا کروں۔ اپنی انا میں آ کر پتھر نا بن جاؤں۔ مجھ سے وابسطہ لوگوں کی امیدیں نا ٹوٹ جایں۔ اگلے سال جب دسمبر آئے تو دل کی حالت مطمئن ہو، ذہن پہ کوئی بوجھ نا ہو۔
مگر مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں نیا سال کو ئی ایسا زخم نا دے جو ساری عمر کا روگ بن جائےکوئی ایسی سزا نا دے جس کے آثار آخری سانس تک باقی رہیں۔
میں دعا کرتی ہوں، زندگی سب کے لئے آسان ہوجائے ، ہم سب کو آسانیاں دیں، سب ہم سے خوش رہیں۔ میں اب کے سال زندہ رہوں تو زندگی فخر کرے اور میں مر جاؤں تو لوگ یاد رکھیں۔




ایک خوبصورت سا گانا اس دسمبر کے لئے، اچھی یادوں کے نام، ان لوگوں کے نام جن سے میں نے بہتت کچھ سیکھا اور ان کے نام جنہوں نے میرا دل دکھایا
ایک پاگل سی لڑکی
وہ واقع پاگل تھی شاید، زندگی اس کے لئے ایک مذاق سے زیادہ نہیں تھی۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اسے زندگی ملی ہے تو اسے گزارنے کا بھی ایک طرز و طریقہ ہے۔ پر وہ زندگی کو گزارتی ہی جارہی تھی فضول اور بے مقصد۔ اس نے ہمیشہ باغی کا کردار ادا کیا۔ اپنی ہی من مانی کی۔ جو دل نے کہا مان لیا بنا سوچے سمجھے۔ نا کسی سے پوچھا نا مشورہ لیا ۔ اگر کسی نے کہا یہ کر و تو وہ کہا کرتی نہیں ایسے کرنا ہے۔اس کی فطرت ہی ایسی تھی۔ وہ ہنس مکھ سی لڑکی رونقیں ڈھونڈا کرتی تھی۔ ہنسنا ہنسانا اس کا سب سے دلچسب مشغلہ تھا ۔ دوسروں پر اندھا اعتبار کرنے کی بُری عادت تھی۔ مہندی لگانا اسے بڑا پسند تھا ۔ اچھے کپڑوں کی دیوانی تھی وہ۔ پھر یو ں ہو ا کی حالات نے ایسے ایسے تھپڑ مارے اسے کہ درد کی شدت اس کی ساری زندگی تک اس کا پیچھا کرتی رہے۔ زندگی کوئی مذاق نہیں یہ اس نے تب سیکھا جب اس نے دنیا کو دوسرے رخ سے دیکھا ۔ جب اسے دوسروں بے پناہ اعتبا ر کا صلہ ملا اور پھر ملتا ہی گیا ۔ بس پھر زندگی اس کے لئے بہت مشکل ہو گئی ۔ وہ پاگل سی ہنس مکھ سی لڑکی کو چپ سی لگ گئی۔ پھر وہ رب سے گلہ کرنے لگی کہ تو نے مجھے بنایا ہی کیوں تھا ۔ ٹھوکریں کھا کھا کر دھو کے اور فریب کی زندگی سے اس نے کچھ سنبھل جانا سیکھا۔ زندگی کی تلخیوں نے اس کے اندر زہر بھر دیا۔ اور اس زہر کو وہ ہر ایک پر اگلنے لگی۔ مگر اس بار اسے بھی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے گھر والے اسے بدزبان کہنے لگے۔ پھر اس نے دوسروں کی پسند کا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ اس نے عید پہ بھی مہندی لگانا چھوڑ دی کہ اس کی ماں کو اس کا بے وجہ مہندی لگا نا پسند نہیں تھا۔ مگر عید پر مہندی لگانا کوئی بے وجہ نہیں ہوتا پر مہندی سے اس کا دل ہی اچاٹ ہو گیا۔اس نے اپنی زبان پر اپنے پر تالا ڈال لیا۔ وہ بولتی تھی پر ضرورت دنیا کے لئے۔ وہ ہنستی تھی ایک رسم سمجھ کر۔ ہاں ایک کا کا م وہ بہت دل سے کیا کرتی تھی۔ "رونا" اب رونا اس کا بہترین مشغلہ بن گیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو زندگی کی بپھرتی ہوئی موجوں کے حوالے چھوڑ دیا تھا اس لئے کہ یا تو وہ ڈوب جائے گی یا تیرنا سیکھ جائے گی۔ اس سے وابسطہ ہر شخص کو اس سے گلہ تھا اس کے والدین کو اس کے بہن بھائیوں کو سب کو۔ اور اس کو اپنے آپ سے ان گنت گلے تھے اپنی نادانیوں پہ بہت غصہ تھا، اپنی عادتوں اور فطرت پہ اسے بہت افسوس تھا۔
بوعلی سینا سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ زندگی سے کیا پایا؟ رو پڑے
بولے۔ جو پایا وہ رب کی مہربانی تھی اور جو کھو دیا وہ میر ی اپنی نادانی تھی۔
یہی حال کچھ اس لڑکی کا تھا اس نے جو بھی کھو دیا تھا سب اس کی اپنی کو تا ہیاں اور نادانیاں تھیں۔
اس نے کچھ تو جینا سیکھ ہی لیا تھا اور کچھ دنیا اسے اور سکھا دے گی۔ مگر اس نے زندگی کو کیا دیا اور زندگی نے اسے کیا دیا اس بات کا افسوس آخری سانس تک اس کے ساتھ رہے گا۔اور وہ یہی خواہش کرتی رہے گی زندگی ایک بار اور مل جائے تو وہ کوئی غلطی نا کرے۔
واسلام۔
ہم زندگی میں ہمیشہ دو عمل کرتے ہیں۔  اچھے یا بُرے، ۔ اور ہمیں اپنے ہر عمل کے لئے جواب دینا پڑتا ہے۔ ہم یا تو اپنے
فائدے کے لئے کام کرتے ہیں یا کسی اور کے ۔لیکن کبھی ہم نے یہ سوچاہے کہ ہمارا فائدہ ہوتا دراصل کس میں ہے۔آپ سب نے اشفاق احمد کی تحریریں تو پڑھی ہوں گی اور اگر کسی نے نہیں پڑھیں تو اس نےا پنے اوپر بہت ظلم کیا ہے۔ اشفاق احمد کی باتیں بھی بہت انوکھی ہے وہ کسی بھی مسئلےکے حل  کو ایک ہی جملے میں بیان کر دیتے۔ جیسے مومن اور مسلمان کی تعریف وہ یوں بیان کر تے کہ مومن وہ ہو تا ہے جو اللہ کی مانتا ہےا ور مسلمان وہ ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا ہے۔ وہ اپنی تحریرون کے آخر میں ایک لائن لکھا کرتے ہیں کہ "اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں پیدا کرنے کا شرف نصیب کرے۔  کبھی  میں ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے اس لائن کو بھی آرام سے پڑھ کے بند کر دیا کرتی تھی مگر اب اندازہ ہوا ہے اس کی صحیح  اہمیت  کا۔ اگر ہم کسی کو آسانی دیں تو آسانی خود با خود ہی مل جاتی ہم کو۔ لیکن اگر ہم دوسروں کے نقصان میں اپنی آسانیاں ڈھونڈنے لگیں تو زند گی مشکل ہونے لگتی ہے۔ اس لئے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنی چاہیئں تاکہ اللہ ہمارے لئے آسانیان پیدا کرے۔

Total Pageviews

Powered By Blogger

Contributors

Followers